کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 790
ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہر ایک چیز کے خالق و مالک ہیں ؛ اور ہر قسم کی قوت و طاقت صرف اﷲ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عرش ربانی اور حاملین عرش جس قوت سے بہرہ ور ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کی پیدا کردہ ہے۔اور حاملین عرش ملائکہ کے افعال کے پیدا کرنے والے بھی اللہ تعالیٰ ہیں ؛ جب اللہ تعالیٰ ہی ہر ایک چیز کے خالق و مالک ہیں ؛ اور ہر ایک قوت و طاقت بھی اسی کی طرف سے ہے توپھر یہ بات ممتنع ہے کہ وہ کسی دوسرے کے محتاج ہوں ۔ اگراس سے تمہارے شیعہ اسلاف میں سے کوئی مثلاً یونس بن عبدالرحمن القمی (مشہور شیعہ عالم) اور اس کے امثال و ہمنوا یہ دلیل پیش کریں اور یہ کہے کہ عرش نے اﷲ تعالیٰ کو اٹھا رکھا ہے، (جیسا کہ اس کا عقیدہ ہے)؛ تو تم اس کے حق میں کوئی دلیل پیش کرنے سے قاصر رہو گے۔جو لوگ اﷲ تعالیٰ کو فوق العرش قرار دیتے ہیں وہ یہ نہیں کہتے کہ اﷲ تعالیٰ عرش کا محتاج ہے، بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جب ہم نے ذات الٰہی کو ایک ایسی چیز پیدا کرنے پر قادر تسلیم کر لیا جس نے اسے اٹھا رکھا ہے، تو اس سے اس کی قدرت کاملہ کا اظہار ہوتا ہے، نہ کہ دوسروں کی طرف عجز و درماندگی کا۔ ہم قبل ازیں بیان کرچکے ہیں کہ جہت سے امر موجود بھی مراد لیا جا سکتا ہے اور امر معدوم بھی۔ جو شخص اﷲ تعالیٰ کو فوق العالم تسلیم کرتا ہے، وہ یہ نہیں کہتا کہ وہ کسی ایک موجودجہت میں ہے۔البتہ یہ ممکن ہے کہ جہت سے عرش مراد لیا جائے، اور باری تعالیٰ کے اس میں ہونے کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ وہ اس کے اوپر ہے۔ جیسے روایات میں آیا ہے کہ: ’’ اِنَّہُ فِی السَّمَآئِ‘‘ (وہ آسمان میں ہے) یعنی’’ وہ آسمان کے اوپر ہے ۔‘‘ پس اس اعتبار سے جب وہ تمام عالم سے اوپر ہے تو ایسے ہی تمام مخلوقات سے بے نیاز بھی ہے۔پھر جہت سے مراد ان کے نزدیک ایسی وجودی چیز نہیں ہوگی جس میں اللہ تعالیٰ موجود ہوں ؛ چہ جائے کہ وہ اس کا محتاج ہو۔ اور اگر جہت سے مراد فوق العالم ہے تو پھر اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔ یہ کوئی امر وجودی نہیں کہ یہ کہا جائے کہ وہ اس کا محتاج ہے ؛ یا کوئی دوسرا اس کا محتاج ہے۔ مگر یہ لوگ جہت کو ایک مشترک لفظ قرار دیتے ہیں اور اس زعم فاسد میں مبتلا ہیں ؛اور دوسروں کواس زعم میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب وہ کسی جہت میں ہے ؛ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ اپنے علاوہ ہر ایک چیز میں موجود ہے ۔ جیسے آدمی اپنے گھر میں ہوتا ہے ؛ اور جیسے شمس و قمر اور کواکب آسمان میں ہیں ؛ پھر اس سے اور ایک نتیجہ نکالا جس سے اﷲ تعالیٰ کا محتاج الی الغیر ہونا لازم آتاہے۔جب کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک چیز سے غنی اور بے نیاز ہے۔ اوریہ سب مقدمات باطل ہیں ۔ مثلاً ان کا یہ قول کہ ’’ اﷲ تعالیٰ اگر کسی جہت میں ہوگا تو وہ مجسم ٹھہرے گا، اور جو چیز جسم دار ہو وہ حادث ہوتی ہے، کیونکہ جسم حوادث سے خالی نہیں ، لہٰذا اس سے اﷲ تعالیٰ کاحادث ہونا لازم آئے گا۔‘‘