کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 787
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہوتے تو اس سے حوادث پیش آتے۔ تو ابو جعفر نے کہا: ’’ استواء کا علم ہمیں نقلی دلائل سے حاصل ہوا، ان کی عدم موجودگی میں ہم اسے معلوم نہ کر سکتے تھے۔ اور آپ اس کی تاویل کرتے ہیں ۔اب اسے چھوڑئیے اور ہمیں ایک بد یہی بات کا پتہ بتلائیے جس کا احساس ہمارے دل میں جاگزیں رہتا ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی عارف زبان سے ’’ یا اﷲ ‘‘ کہتا ہے تو قبل اس کے کہ اس کی زبان پر یہ کلمہ جاری ہو،اس کے دل میں علو (بلندی) کا مفہوم پیدا ہو جاتا ہے، (یعنی فوراً اس کا ذہن اس طرف مائل ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ فوق العالم ہے) وہ دائیں بائیں متوجہ نہیں ہوتا، کیا آپ کسی حیلہ سے اس بد یہی بات کو ہمارے دل سے محو کر سکتے ہیں ؟ ‘‘ مذکورہ صدرعبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی فوقیت کی نفی کے لیے جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ نظری کسبی ہے؛جوکہ کسی بھی طرح ایک بد یہی و فطری دلیل کا مقابلہ نہیں کر سکتی، خصوصاً جب کہ باری تعالیٰ کا فوق العالم ہونا، نصوص متواترہ سے ضرورت کے تحت ثابت ہے۔ یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بدیہیات کا نظری دلائل سے ردکرنا ناممکن ہے، اگر بدیہیات کو بھی ہدف تنقید بنایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اساسی نظریات پر جرح و قدح کا دروازہ کھول دیا جائے اور اس طرح فروعات کی بجائے اصول کو تنقید کے تیروں سے چھلنی کیا جائے؛تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بدیہیات و نظریات دونوں ہی باطل ہو کر رہ جائیں گے۔پس اس پر متکلم نے اپنے سر پر ہاتھ مارا اور کہا: ہمدانی نے مجھے حیران کردیا۔ ہمدانی نے مجھے حیران کردیا۔ ہمدانی نے مجھے حیران کردیا۔‘‘ تاہم اﷲ تعالیٰ کے فوق العالم ہونے کی نفی کرنے والوں نے اپنے زاویہ نگاہ کو عقلی دلائل کے بل بوتے پر ثابت کرنے کی سعی لا حاصل کی ہے؛اگران کی دلیل صحیح ثابت بھی ہوجائے تو وہ فقط نظری دلیل ہوتی ہے۔جب کہ ہمارے پاس اس کا علم ضروری پایا جاتا ہے۔اس علم کی روشنی میں ہم اس قصد ویقین پر مجبور ہیں ۔پس کیا آپ کے پاس اس علم ضروری اور قصد ضروری کے رد میں کوئی دلیل ہے؟جو کہ ہم پر اس طرح سے لازم ہے کہ ہم اس کو ختم نہیں کرسکتے۔ پھر اس کے بعد اس کے نقیض پر دلائل پیش کئے۔ ضروریات کو نظریات سے ختم کرنا نا ممکن ہے۔ اس لیے کہ نظریات کی منتہاء یہ ہے کہ ان پر ضروری مقدمات سے دلائل پیش کئے جاسکیں ۔ پس ضروریات نظریات کی اصل اور بنیاد ہیں ۔ اگر ضروریات پر نظریات سے قدح کی جائے تو اس سے نظریات کی اصل پر قدح لازم آتی ہے۔ پس اس صورت میں نظریات اور ضروریات دونوں باطل ٹھہرتی ہیں ۔پس اس لیے ہر حال میں ہم پر اس قدح کو باطل ثابت کرنا لازم آتا ہے۔ اس لیے کہ کسی چیز کی بنیاد پر قدح کرنا خود اس کی ذات میں [1]
[1] آیا ہوں ۔اور وہ یہ ہے کہ انہی عقائد پر قائم رہو جن پر بوڑھی عورتیں یقین رکھتی ہیں ، اسی پر میری موت واقع ہوگی اور میرا خاتمہ حق و صداقت اور کلمہ اخلاص پر ہوگا، اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو تو ابن الجوینی کے لیے تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ نہیں ۔ شذرات الذہب میں لکھا ہے کہ: یہ امام الحرمین کے اصلی الفاظ ہیں ۔