کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 783
تعالیٰ ہر شبِ جمعہ کو زمین پر نزول فرماتا ہے۔ [1] اور نہ یہ کہ رب تعالیٰ بے ریش کی شکل میں نزول فرماتا ہے۔[2] بلکہ آثار اور احادیثِ صحیحہ میں ایسا ھذیان ہر گز بھی وارد نہیں ۔ اس بارے منقول ہر حدیث باطل اور موضوع ہے۔ جیسے خاکی اونٹ والی حدیث، اور یہ کہ رب تعالیٰ عرفہ کی رات نزول فرماتا ہے، اور سواروں سے معانقہ اور پیادوں سے مصافحہ کرتا ہے، وغیرہ۔ اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کے دوران اپنے رب کو دیکھا اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاء مکہ میں اپنے رب کو دیکھا وغیرہ۔ اہل حدیث معرفت کا ان روایات کے جھوٹے ہونے پر اتفاق ہے۔ ان روایات کو گھڑنے والوں کا مقصود حضرات محدثین کو بدنام کرنا ہے کہ ان سے ایسی باتیں بھی منقول باور کی جائیں ۔ جیسے گھوڑے کے پسینے والی جھوٹی حدیث۔ [3]
[1] علامی سیوطی (اللالیٔ المصنوعۃ: ۱؍ ۲۶ ۔ ۲۷) علامہ شوکانی (الفوائد المجموعہ، ص: ۴۴۶ ۔ ۴۴۷) اور ابن عراق الکنانی (تنزیہ الشریعۃ: ۱؍ ۱۳۸) نے ایک حدیث روایت کی ہے جس میں یہ ہے کہ: رب تعالیٰ ہر شبِ جمعہ کو دارِ دنیا کی طرف چھ لاکھ فرشتوں کے جلوسِ نزول فرماتا ہے اور نور کی کرسی پر بیٹھتا ہے.... الخ۔ شوکانی کہتے ہیں : یہ حدیث جوزفانی نے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت کی ہے۔ لیکن کذب، موضوع، باطل اور شیوخ پر الزام ہے۔ اسے ابو السعادات احمد بن منصور بن حسن بن قاسم نے گھڑا ہے جو ابنِ جوزی کے بقول کذاب ہے۔ اس جیسی ایک اور باطل روایت بھی ہے جو سیوطی نے ’’ذیل الالیٔ المصنوعہ، ص: ۲‘‘ میں نقل کی ہے۔ بے شک ایسی روایات باطل ’’منکر‘‘ موضوع اور جھوٹ ہیں ۔
[2] علامہ سیوطی نے (اللالیٔ المصنوعۃ: ۱؍ ۲۸ ۔ ۳۱)۔ میں ایسی متعدد روایات ذکر کی ہیں ۔ان میں سے ایک روایت حضرت ام طفیل والی مرفوع روایت ہے؛ جس میں آپ فرماتی ہیں :’’ میں نے اپنے رب کو نیند میں بہترین صورت میں دیکھا؛ ایک مؤقر نوجوان کی شکل میں ؛ اس کی ٹانگیں سبزہ میں تھیں ؛ اوران میں سونے کے جوتے تھے۔ اور اس کے چہرے پرسونے کے نشان تھے۔‘‘امام شوکانی نے یہ روایت ’’الفوائد ص ۴۴۷‘‘ پر نقل کی ہے۔ دوسری روایت(اللالیٔ المصنوعۃ: ۱؍ ۲۹)پرہے؛ حضرت ابن عباس سے روایت ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں نے اپنے رب کو ایک نوجوان کی صورت میں دیکھا جس کے کانوں تک بال تھے‘‘ تیسری روایت : حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ’’ آپ نے اپنے رب کوایک نوجوان کی صورت میں دیکھا جو کہ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا؛ اس کی ٹانگیں سبزے میں تھیں جن سے نور پھوٹ رہا تھا۔‘‘(اللالیٔ المصنوعۃ: ۱؍ ۲۸)
چوتھی روایت: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو ایک نوجوان کی شکل و صورت میں دیکھا جس کے سر پر تاج تھا۔‘‘اور پانچویں روایت : حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میں نے اپنے رب کو ایک بے ریش نوجوان کی شکل میں دیکھا؛ جس پر سبز لباس تھا۔ اور چھٹی روایت : حضرت ابن عباس فرماتے ہیں : صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو ایک بے ریش نوجوان کی میں بغیر پردہ کے دیکھا؛ اس کے پاؤں سبزہ میں تھے۔‘‘
علامہ سیوطی نے ان روایات کے بارے میں علماء کے اقوال نقل کئے ہیں ۔ ان میں سے بعض نے ان روایات کا انکار کیا ہے؛ اور انہیں من گھڑت کہا ہے؛ اور بعض نے ان میں تأویل کی کوشش کی ہے کہ یہاں پر رویت سے خواب میں دیکھنا ہے۔ اور رسول اللہ تعالیٰ نے اپنے رب کو اپنے دل سے دیکھا تھا۔ علامہ ابن دبیع الشیبانی نے اپنی کتاب (تمییز الطیب من الخبیث فیما یدور علی ألسنۃ الناس من الحدیث ص ۹ )میں کہا ہے:
’’ یہ حدیث : میں نے اپنے رب کو ایک بے ریش نوجوان کی شکل میں دیکھا‘‘ جو کہ عوام الناس صوفیہ کے ہاں زد زبان عام ہے؛ یہ ایک من گھڑت روایت ہے جو کہ رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولا گیا ہے۔جیسا کہ علامہ تاج الدین سبکی نے بھی کہا ہے۔‘‘ (انظر: تذکرۃ الموضوعات للفتنی ۹؍۲؛ الموضوعات لملا علی القاری ۴؍۹؛ وتنزیہ الشریعۃ ۱؍ ۱۴۵)
[3] سیوطی نے (اللالیٔ: ۱؍۳ میں ) یہ حدیث حاکم سے نقل کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ تعالیٰ کے رسول! ہمارا رب کس چیز سے بنا ہے؟ فرمایا: کڑوے پانی سے۔ جو نہ زمین کا ہے اور نہ آسمان کا۔ اس نے گھوڑوں کو پیدا کیا اور انہیں دوڑایا جس سے انہیں پسینہ آیا۔ پس اس اپنے آپ کو اسی پسینہ سے پیدا فرمایا۔‘‘ اس کے بعد سیوطی حاکم کا یہ قول نقل کرتے ہیں : یہ ہدیث موضوع ہے۔ یہ محمد بن شجاع نے گھڑی ہے۔ کسی مسلمان سے ایسی حدیث گھڑنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سیوطی اس پر یہ زائد کہتے ہیں : اور نہ کسی عقل مند سے۔ اس کے بعد موصوف ابن شجاع الثلجی کے بارے میں کلام نقل کرتے ہیں ۔ دیکھیں : لسان المیزان: ۶؍ ۲۹۲۔