کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 781
کسی قائل کو جانتا ہوں اور نہ ناقل کو۔ البتہ عبداللہ بن خلیفہ کی حدیث میں یہ ضروری مروی ہے کہ: عرش کی چار انگشت برابر جگہ بھی فالتو نہیں ۔ [1] کہ یہ روایت نفی کے ساتھ بھی ہے اور اثبات کے ساتھ بھی۔ متعدد محدثین نے اس حدیث میں طعن کیا ہے۔ جیسے اسماعیلی، ابن جوزی، بعض نے اس حدیث کے شواہد ذکر کر کے اسے قوی بھی کیا ہے۔
اب نفی کے لفظ پر کوئی اشکال نہیں ۔ کیونکہ ایسا لفظ احادیث میں نفی کے عموم کے لیے آتا ہے۔ جیسے حدیث میں ہے کہ: ’’آسمان میں چار انگشت برابر بھی جگہ نہیں مگر وہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ قیام و قعود میں رکوع و سجدہ میں ہے۔‘‘ [2] یعنی آسمان میں سرے سے کوئی جگہ خالی ہی نہیں ہے۔
اس معنی میں عربوں کا یہ قول ہے کہ: ’’آسمان میں ہتھیلی کے بقدر بھی بادل نہیں ۔‘‘ کیونکہ ہتھیلی کے ذریعے مساحت کی جاتی ہے۔ جیسا کہ گز کے ذریعے کی جاتی ہے، اور آدمی کے اعضاء میں مساحت کا سب سے چھوٹا عضو ہتھیلی ہے۔ لہٰذا یہ سب سے کم مقدار کے لیے مثل بن گئی۔
پس جب یہ کہا جائے کہ عرش کی چار انگشت برابر جگہ بھی فاضل نہیں اور معنی یہ ہو کہ زائد اور فالتو نہیں ، تب پھر یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہوگا کہ رب تعالیٰ عرش سے عظیم اور بڑا ہے۔
اب یہ بات معلوم ہے کہ یہ حدیث قولِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہو تو ہم پر اس میں سے کچھ واجب نہیں ، اور اگر یہ قولِ نبی ہو تو یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفی اور اثبات کو یکجا نہیں کیا۔ اگر تو یہاں نفی ہے تو اثبات نہیں ۔ اب جو لوگ یہاں اثبات کے قائل ہیں ۔ انہوں نے یہاں اپنے اصول کے مناسب کلام کیا ہے۔ اس کی تفصیل دوسرے مقام پر ہے۔
یہ اور اس جیسی باتیں چاہے حق ہوں یا باطل، نہ تو اہلِ سنت کے مذہب میں قادح ہیں اور نہ مضر۔ کیونکہ اگر ان کو باطل مانیں تو یہ ان کا قول نہیں ہو سکتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان میں سے کسی ایک فرقہ کا قول ہوگا جسے کچھ لوگوں نے روایت کر دیا ہوگا۔
اور جو باطل ہوگا اسے جمہور نے رد کر دیا ہوگا۔ جیسا کہ وہ دیگر اقوال کو بھی رد کر دیا کرتے ہیں ۔ بہت سارے مسلمانوں نے باطل اقوال کیے ہیں ۔ لیکن یہ اقوال مسلمانوں کے دین کے حق میں مضر نہیں ۔ امامیہ کے متعدد ایسے منکر اقوال ہیں جن میں ایسی باتیں مذکور ہیں ۔ چاہے ان کو بعض اہلِ سنت نے بھی کہا ہو۔
[1] کتب رجال میں اس نام کے دو آدمی ملتے ہیں : (۱) عبداللہ بن خلیفہ طائی کوفی ہمدانی (دیکھیں : طبقات ابن سعد: ۶؍ ۱۲۱) اور (۲) عبداللہ بن خلیفہ یا خلیفہ بن عبداللہ (دیکھیں : تقریب التہذیب، ص: ۴۱۲) اب میں نہیں جانتا کہ یہاں دونوں میں سے کون مراد ہے۔
[2] الدر المنثور للسیوطی: ۱؍ ۲۹۲ ۔ ۲۹۶۔