کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 780
کا مشاہدہ حاصل ہے۔ ان کے نزدیک دنیا و آخرت کا مشاہدہ ایک ہی ہے۔ کیونکہ اس کی مطلق ذات ساری کائنات میں جاری و ساری ہے۔ اس قسم کی باتیں اور اقوال لوگوں میں موجود ہیں ۔ البتہ شیعہ کے اقوال زیادہ قبیح و شنیع ہیں ۔ جیسا کہ غالی نصیریہ وغیرہ کے اقوال ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ نصیریہ وحدۃ الوجود کے قائلین کی بے حد تعظیم کرتے ہیں ، اور تلمسانی [1] وحدت کے قائلین کا شیخ تھا۔ جس نے النفری [2] کی ’’موافقت‘‘ کی شرح کی ہے، اور اس کے علاوہ بھی کتابیں لکھیں ۔ نصیریہ کی طرف مائل ہوئے تو ان کے لیے بھی ایک کتاب لکھی۔ اس لیے نصیریہ تلمسانی کی بے حد تعظیم کرتے ہیں ۔ مجھے نقیب الاشراف تلمسانی سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے تلمسانی سے پوچھا کہ کیا آپ نصیری ہیں ؟ تو کہنے لگے کہ نصیری تو میرا ایک جز ہیں ۔ روافض کاعقیدہ : ’’رب تعالیٰ کی آنکھ دکھی اوروہ رویا بھی‘‘ پر تبصرہ: ٭ رہا اس امامی کا یہ کہنا کہ: رب تعالیٰ کو آشوب چشم ہوا اور فرشتوں نے اس کی عیادت کی اور رب تعالیٰ طوفانِ نوح پر رویا وغیرہ۔ تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے اس قسم کے اقوال یہود سے نقل کیے ہیں ۔ جتنے مسلمانوں کو میں جانتا ہوں ، یہ ان میں سے کسی کا بھی قول نہیں ، اور اگر اہلِ قبلہ میں سے کسی نے یہ قول کیا بھی ہے تو قابلِ افکار نہیں ۔ (کوئی ایک آدھ ایسا گمراہ نکل بھی آتا ہے) کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ’’تم قدم بہ قدم اپنے سے پہلوں کی چال چلو گے۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں بھی داخل ہوئے تھے تو تم بھی اس میں داخل ہو کر رہو گے۔‘‘ [3] لیکن چونکہ یہ روافض یہود کے مشابہ ہیں ۔ اس لیے ان میں ایسے لوگوں کا پایا جانا بہ نسبت اہلِ سنت کے زیادہ ظاہر ہے۔ روافض کے عقیدہ: ’’عرش چہار جانب سے رب تعالیٰ سے انگشت بڑا ہے‘‘ پر تبصرہ: ٭ رہا اس امامی کا یہ قول کہ عرش ہر جانب سے رب تعالیٰ سے چہار انگشت زیادہ بڑا ہے۔ تو میں نہ تو اس کے
[1] یہ عفیف الدین سلیمان بن عبداللہ بن علی الکومی التلمسانی ہے جس کا ترجمہ گزر چکا ہے۔ [2] یہ ابو عبداللہ محمد بن عبدالجبار بن حسن النضری ہے۔ یہ النفر نامی شہر کی طرف منسوب ہو کر النفری کہلاتے ہیں جو کوفہ کا ایک پر گند ہے۔ شعرانی نے الطبقات الکبری: ۱؍ ۱۷۴ ۔ ۱۷۵۔ میں اس کا ترجمہ ذکر کیا ہے، اور کہا ہے کہ: موصوف کا قول کے طریق میں بڑا عالی کلام تھا۔ ’’المواقف‘‘ جیسی کتاب لکھی۔ جسے شیخ محی الدین ابن العربی نے ان سے نقل کیا ہے۔ ۳۵۴ھ میں وفات پائی۔ دیکھیں : المشتبہ للذہبی: ۲؍ ۶۶۴۔ عیسی الحلبی۔ [3] صحیح البخاری، کتاب الانبیاء باب ما ذکر عن بنی اسرائیل عن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ مع اختلاف اللفظ: ۴؍ ۱۶۹۔