کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 779
کے زیادہ ہے۔ کیونکہ یہ باطنی اسماعیلی قرامطی آئمہ، غیر اسماعیلی اور دیگر بے شمار فلسفیوں کا قول ہے۔ اسی لیے ان کے بارے میں یہ مثل مشہور ہے کہ ’’فلاں تو میرا خون یوں حلال سمجھتا ہے۔ جیسے یہ فلاسفہ محظورات شرعیہ کو حلال سمجھتے ہیں ، اور تصوف اور کلام کی طرف منسوب اکثر لوگوں کا یہ قول ہے، اسی طرح وہ لوگ جو اپنے آپ کو یا اپنے متبوع کو نبیوں سے افضل سمجھتے ہیں ، اسی طرح فلاسفہ، باطنیہ اور غالی صوفیہ میں یہ کلام سمجھتے ہیں ۔ اسے ایک دوسرے موقع پر مفصل ذکر کیا جا چکا ہے۔
غرض یہ اقوال اہلِ سنت کے نزدیک سخت برے ہیں جو شیعہ میں پائے جاتے ہیں ۔
اکثر عبادت گزار یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے رب تعالیٰ کو اس دنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک عبادت کی کثرت کی وجہ سے اپنے اندر وہ انوار دیکھتا ہے جو اس کی ظاہری حس سے پوشیدہ ہوتے ہیں ، اور وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ اس نے ان چیزوں کو اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھا ہے۔ حالانکہ وہ اس کے دل میں ایک خیال ہوتا ہے۔ پھر ان میں سے بعض ان نظر آنے والی صورتوں سے یوں خطاب کرتے ہیں ۔ جیسے وہ ان کا رب ہو، اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ سب خارج میں موجود ہے۔ حالانکہ وہ اس کے نفس میں ہوتا ہے۔ جیسے کوئی نیند میں حسب حال اپنے رب کو دیکھے۔ ایسی باتیں ہمارے زمانے میں اور پہلے زمانے میں بہت ہوئی ہیں ۔ ان لوگوں کو غلط فہمی یہ ہوتی ہے کہ وہ ان چیزوں کو خارج میں موجود سمجھتے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے سامنے شیطان متمثل؍ مجسم ہو کر آتا ہے اور وہ نور کو یا عرش کو یا عرش پر نور کو دیکھتے ہیں ، اور شیطان انہیں یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا رب ہوں اور کسی کو یہ کہتا ہے کہ میں تمہارا نبی ہوں ۔ ایسا بہتوں کے ساتھ ہوا ہے۔ پھر ان میں سے بہت سے لوگوں کو خدا بن کر آواز میں سنائی دیتی ہیں ۔ حالانکہ وہ آواز جن کی ہوتی ہے۔ غرض یہ موقع اس بات کی تفصیل کا نہیں کہ وہ خارج کی آواز باطل ہوتی ہے، اور وہاں حق اور باطل میں کیونکر تمیز کی جائے۔
بہت سے جاہل اہلِ حال یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ: انہوں نے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کو عیاناً دیکھا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے چند قدم چل کر بھی دکھایا ہے۔ پھر یہ لوگ اس کے ساتھ کفر سے بھی بڑھ کر باتیں کرتے ہیں ۔ مثلاً اگر فلاں شیخ نے مجھے روزی نہ دی تو مجھے یہ روزی چاہیے ہی نہیں ، اور یہ کہ اس کا شیخ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تک کا شیخ ہے۔ یہ سب غالی شیوخ کا اقوال ہیں ۔ البتہ اسماعیلیہ اور نصیریہ شیعہ میں اس سے بھی بڑھ کر غالبانہ اور کفریہ اقوال پائے جاتے ہیں ۔ ایسے اقوال ان گمراہ نام نہاد اہل سنت ہی بھی نہیں پائے جاتے۔ پھر بعض شیعہ دوسروں سے بھی زیادہ خبیث ہیں ۔
پھر وحدۃ الوجود کے قائلین جیسے ابن عربی اور ابنِ سبعین [1] وغیرہ کا یہ دعویٰ ہے کہ انہیں ہر وقت رب تعالیٰ
[1] یہ ابو حفص عمر بن مرشد بن علی شرف الدین ابن الفارض ہے، جو الحموی الاصل ہے۔ جبکہ ولادت مصر میں ہے، اور سکونت اور وفات بھی مصر میں ہی ہوئی۔ سلطان العاشقین لقب تھا۔ سن ولادت ۵۷۶ھ اور سنِ وفات ۶۳۲ھ ہے۔ دیکھیں : وفیات الاعیان: ۳؍ ۱۲۶ ۔ ۱۲۷۔