کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 777
ہو کر رہے اور جو فقہ حاصل کرنا چاہتا ہے ، وہ امام ابو حنیفہ کا دامن تھام لے۔‘‘[1] اور مقاتل بن سلیمان اگرچہ حدیث میں حجت نہیں بخلاف مقاتل بن حیان کے کہ وہ ثقہ ہے۔ [2] لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی تفسیر اور دوسرے علوم پر بے پناہ دسترس تھی۔ [3] جیسا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہ اگرچہ لوگوں نے متعدد باتوں میں ان کی مخالفت کی۔ لیکن اس سب کے باوجود کسی کو بھی ان کے علم و فہم اور فقہ میں ادنیٰ سا بھی شک نہیں ۔ لوگوں نے امام موصوف کی برائی بیان کرنے کے لیے ان سے متعدد باتوں کو نقل کیا ہے۔ جو ان پر سراسر بہتان اور جھوٹ ہیں ۔ جیسے بری خنزیر وغیرہ کا مسئلہ۔ تو پھر اس باب میں مقاتل بن سلیمان سے ایسی باتوں کا منقول ہونا کیا بعید ہے۔ اس امامی نے مذکور نقل کو داؤد طائی [4] سے نقل کیا ہے اور یا تو یہ اس کا جہل ہے یا پھر اس کا جہل ہے۔ جس سے اس امامی نے نقل کیا ہے۔ کیونکہ داؤد طائی تو امام ابو حنیفہ، ثوری، شریک اور ابن ابی لیلیٰ وغیرہ کے دور میں اہلِ کوفہ کے فقیہ اور عابدوز اہد تھے۔ موصوف فقہ حاصل کرنے کے بعد عبادت میں لگ گئے تھے۔ علماء کے ہاں ان کی سیرت اور ان کے احوال مشہور ہیں ۔ انہوں نے ایسی کوئی باطل بات نہیں کہی۔ یہ بات تو داؤد جواربی نے کہی ہے۔ شاید اسی امامی پر یا اس کے شیوخ کو داؤد طائی اور داؤد جواربی میں اشتباہ لگ گیا ہے۔ میرے سامنے موجود نسخہ میں یہ غلطی نہیں ہے۔ میرے خیال میں داؤد جواربی بصری اور ان طائی سے جو کوفی تھے متاخر تھے، اور ان کا قصہ معروف ہے۔
[1] وفیات الاعیان: ۴؍ ۳۴۱۔ میں مقاتل کے ترجمہ میں لکھا ہے: ’’امام شافعی سے منقول ہے: سب لوگ تین کے محتاج ہیں : تفسیر میں مقاتل کے، شعر میں زہیر بن ابی سلمی کے، اور کلام میں ابو حنیفہ کے۔ [2] یہ خراسان کے عالم الحافظ ابو بسطام ہیں ۔ ابن سعد کہتے ہیں : یہ ابو معان مقاتل بن حیان البلخی الخزار ہیں ۔ ذہبی انہیں امام، صادق، عبادت گزار متبع سنت اور بڑا صاحبِ غیر کہتے ہیں ۔ ابو مسلم خراسانی کے خروج کے دور میں کابل چلے گئے اور بے شمار لوگوں کو مسلمان کیا۔ ابن معین اور ابو داؤد نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ دیکھیں : ’’تذکرۃ الحفاظ: ۱؍ ۱۷۴‘‘۔ [3] یہ ابو الحسن بن مقاتل بن سلیمان بن شیرازدی، بلخی، خراسانی مروزی ہیں ۔ خاندان بلخ سے تھا جو بعد میں بصرہ منتقل ہو گیا تھا۔ بغداد جا کر حدیث بیان کی۔ ذہبی ابن حیان کے ترجمہ کے آخر میں لکھتے ہیں : (تذکرۃ الحفاظ: ۱؍ ۱۷) اور رہے مفسر مقاتل بن حیان تو انہوں نے ۱۵۰ھ میں بصرہ میں وفات پائی۔ دیکھیں : الجرح والتعدیل: ص: ۵۴۹۔ [4] ابو سلیمان داؤد بن نصیر المتوفی ۱۶۰ھ داؤد طائی کے نام سے مشہور تھے، یہ بڑے فقیہ اور عابد شب زندہ دار تھے ذہبی ’’العبد: ۱؍ ۲۳۵‘‘ میں لکھتے ہیں : موصوف نے فقہ میں مہارت حاصل کی، پھر معتزلی ہو گئے۔ انہوں نے عبدالملک اور ایک جماعت سے حدیث روایت کی ہے۔ موصوف زہد و عبادت اور نیکی و خیر میں فقید المثال تھے۔ ذہبی نے سنِ وفات ۱۶۲ھ بتایا ہے۔ دیکھیں : طبقات ابن سعد: ۶؍ ۳۶۷۔ ، یہ امام ابو حنیفہ، ثوری، شریک اور ابن ابی لیلیٰ کے معاصر تھے اور ان سے استفادہ کر چکے تھے، داؤد طائی کے بارے میں یہ مقولہ مشہور ہے کہ ’’اگر وہ زمانہ ماضی میں ہوتے تو اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ضرور ان کا ذکر فرماتے۔‘‘ شیعہ مصنف کی جہالت کا اندازہ لگائیے کہ داؤد طائی اور داؤد جواربی کے مابین فرق نہ کر سکا۔