کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 775
اسی طرح اہلِ سنت نے دلائلِ عقلیہ سے بھی اس کا رد کیا ہے۔ جیسے یہ بات کہ اس دنیا میں یہ آنکھیں رب تعالیٰ کو دیکھنے سے عاجز ہیں ۔ اب ان لوگوں کی اہلِ سنت پر نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ شرعی۔ مثلاً ان کا رؤیت بادی کی نفی میں یہ کہنا کہ اگر یہ ممکن ہوتا تو کسی جہت میں ہوتا، اور جہت جسم کو لازم ہے، اور یہ دوسرے کہتے ہیں کہ دنیا میں رؤیت ممکن ہے۔ بلکہ وہ کہتے ہیں کہ یہ رؤیت ایک جہت میں ہوگی اور اسی بناء پر اللہ تعالیٰ ایک جسم ہے۔ اور یہ لوگ جہت اور جسم کی نفی میں کوئی دلیل پکڑتے ہیں تو پکڑتے ہیں کہ اس کے ساتھ صفات قائم نہیں ہیں ، اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ صفات قائم ہیں ، اور اگر یہ ان کے ساتھ استدلال پکڑیں تو ان کی دلیل کا منتہی یہ ہو کہ صفات یہ اعراض ہیں ، اور جس کے ساتھ اعراض قائم ہوں وہ حادث ہوتا ہے، اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ اعراض قائم ہیں اور ان کے نزدیک اعراض بھی قدیم ہیں ۔ اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ: جسم حرکت یا سکون سے خالی نہیں ہوتا، اور جو ان دونوں سے خالی نہ ہو وہ حادث ہوا کرتا ہے۔ کیونکہ حوادث کا کوئی اول نہیں ہوتا۔ یہ ہے معتزلہ اور ان کے متبعین شیعہ کے دلائل کا منتہی۔ انہیں دوسرے لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ: ہم اس بات کو تسلیم ہی نہیں کرتے کہ جسم کو وجودی حرکت یا سکون لازم ہے۔ بلکہ جسم کا حرکت سے خالی ہونا ممکن ہے کیونکہ سکون مطلق عدم حرکت کا نام ہے، اور حرکت کا نہ ہونا، اس سے ہوتا ہے جس کی شان یہ ہو کہ وہ حرکت کو قبول کرتا ہے۔ لہٰذا ایسے قدیم اور ساکن جسم کا ثابت ہونا ممکن ہے جو متحرک نہ ہو۔ یہ انہیں یہ کہتے ہیں : ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ حوادث کا اول متمنع ہے، اور ان لوگوں کے ان کے مبنی بر نفی دلائل پر بڑے طعن کیے ہیں ۔ حتیٰ کہ حاذق متاخرین جیسے رازی، آمدی اور ابو الثناء الارموی [1] وغیرہ نے ان سب میں طعن کیا ہے، اور رازی نے متعدد مواقع پر اس پر طعن کیا ہے۔ اگرچہ رازی نے اسی پر متعدد مواقع پر اعتماد کیا ہے، اور آمدی نے لوگوں کے طرق پر طعن کیا ہے سوائے اس طریق کے جو انہیں پسند ہے۔ جو دوسروں سے بھی زیادہ ضعیف طریق ہے جس میں دوسروں نے بھی طعن کیا ہے۔ سو یہ دو ایسے عقلی مقام ہیں جن میں ان لوگوں نے اپنے شیوخ پر طعن کیا ہے۔ لیکن اس میں یہ اپنے متقدمین شیوخ پر غالب نہیں آ سکے۔ تو جب یہ دنیا میں رؤیت بادی کی نفی صرف اسی طریق سے ہی کر سکے ہیں ، تو اب ان کے پاس صرف ان لوگوں کے لیے حجت باقی رہی ہے جو اس بات کے قائل ہیں کہ: رب تعالیٰ کی رؤیت
[1] یہ ابو الثناء سراج الدین محمود بن ابی بکر احمد الارموی ہے۔ انہوں نے اصولِ فقہ میں ’’التحصیل‘‘ جو مختصر المحصول ہے۔ اصولِ دین میں اللباب اور منطق میں اصول الدین والبیان والمطالع لکھی۔ انہوں نے رافعی کی کتاب ’’الوجیز‘‘ کی بھی شرح لکھی۔ موصوف شافعی المذہب تھے۔ ۶۸۲ھ میں وفات پائی۔ دیکھیں : طبقات الشافعیۃ: ۸؍ ۳۷۱۔