کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 774
اثبات، اور جب اس کی مراد کی تفسیر کی جائے گی تو شرع کے موافق حق کو تو قبول کیا جائے گا، البتہ باطل تعبیر کو رد کر دیا جائے گا۔
اور ایسے لفظ کا جو شرع میں نہیں آیا۔ مخاطب کو اس کی لغت میں سمجھانے کے لیے تکلم کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ جبکہ اس کا معنی ظاہر اور صحیح ہو۔ کیونکہ تفہیم کی غرض سے قرآن و حدیث کا دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنا جائز ہے۔ اور بہت سے لوگ ایسی متعین عبارات کے عادی ہوتے ہیں کہ اگر انہیں ان عبارات سے مخاطب نہ کیا جائے تو نہ تو وہ سمجھتے ہیں اور نہ ان کے سامنے ان عبارات کا صحت و فساد ظاہر ہوتا ہے، اور بسا اوقات مخاطب بات کو سمجھتا بھی نہیں ۔
فلسفہ و کلام میں لگنے والے اکثر لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جب ان کے سامنے نصوص شرعیہ صحیحہ کے معانی کو ذکر کیا جاتا ہے تو وہ ان کو قبول نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کے گمان میں وہ معانی ان کی عبارات میں نہیں ہوتے۔ لیکن جب انہی معانی کو ان کی لغت میں ترجمہ کر کے ذکر کیا جائے تو وہ مان لیتے ہیں ۔ جیسے ترکی، بربری، رومی، فارسی کہ جب ان سے قرآن کے ذریعے خطاب کیا جاتا ہے اور اس کی تفسیر بیان کی جاتی ہے تو اس کو نہیں سمجھتے۔ لیکن ان کی زبان میں ترجمہ کیے جانے پر خوب سمجھ لتے ہیں ، اور خوب مردود اور فرحاں ہوتے ہیں اور اپنے باطل اقوال سے رجوع کر لیتے ہیں ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے سب سے اکمل، سب سے عمدہ اور سب سے صحیح ہوتے ہیں ۔ البتہ اس کے لیے دونوں طرف کی کامل معرفت ضروری ہے۔ جیسے ایک ذہین ترجمان وہ دونوں لغتوں کا ماہر ہوتا ہے۔
اور یہ امامی اس باب میں اپنے آئمہ جیسے ہشام بن حکم وغیرہ سے مناظرہ کرتا ہے اور وہ کسی بھی طرح انہیں لا جواب نہیں کر پاتا۔ جیسا کہ وہ کسی بھی طرح خوارج کو لا جواب نہیں کر پاتا۔ اگرچہ ان خوارج اور مجسمہ کے اقوال باطل ہی ہوں کہ جن کو صرف اہلِ سنت ہی باطل قرار دے سکتے ہیں ۔
ہم اس کی ایک مثال ذکر کرتے ہیں : اہل سنت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس دنیا میں رب تعالیٰ کی رؤیت ممکن نہیں ۔ البتہ آخرت میں ممکن ہے۔ البتہ اختلاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رویت بادی تعالیٰ میں ہے۔ البتہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس دنیا میں کوئی مطلق رب تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا۔
ایک جماعت کا یہ قول ہے کہ رب تعالیٰ کی دنیا میں رؤیت ممکن ہے۔ اہلِ سنت کتاب و سنت سے اس کا رد کرتے ہیں ۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں رب تعالیٰ کو نہ دیکھ سکے۔ تو جو موسیٰ علیہ السلام سے کم درجہ کا ہے وہ بدرجہ اولیٰ نہ دیکھ سکے گا۔ اسی طرح اہلِ سنت کی ایک دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بھی ہے:
’’جان لو کہ تم میں سے کوئی اپنے رب کو نہ دیکھ سکے گا، یہاں تک کہ اس کی موت آ جائے گی۔‘‘
(صحیح مسلم) یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے۔ [ اور اس پر مفصل کلام بھی گزر چکا ہے]۔