کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 773
اسی لیے جب ابو عیسیٰ برغوث نے امام احمدرحمہ اللہ کے ساتھ اپنے مناظرے میں انہیں یہ کہا اور اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جب تم قرآن کو غیر مخلوق کہو گے تو اللہ تعالیٰ کا جسم ہونا لازم آئے گا۔ کیونکہ قرآن صفت اور عرض ہے اور وہ فعل کے ساتھ ہی قائم ہوگا، اور صفات، اعراض اور افعالی، اجسام کے ساتھ ہی قائم ہوتے ہیں ۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اس بات کا یہ جواب دیا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ احد وصمد ہے۔ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ اولاد، اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے، اور اس کلام سے کلام والے کا مقصود معلوم نہیں ہوتا، اور ہم اسے مطلق نہیں کہتے۔ نہ نفی میں اور نہ اثبات میں ۔ رہا شریعت کی جہت سے تو اللہ، رسول اور ائمہ اسلاف نے یہ کلام نہیں کیا، نہ نفی میں اور نہ اثبات میں ۔ چنانچہ نہ تو انہوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم ہے اور نہ یہ کہا ہے کہ وہ جسم نہیں ہے۔ لہٰذا جب کہنے والے نے حدوثِ اجسام سے حدوثِ عالم کا قول کیا اور اس کلام میں داخل ہو گیا تو اسلاف نے کلام اور اہلِ کلام کی مذمت بیان کی۔ حتیٰ کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ جس نے دین کو کلام کے ذریعے حاصل کیا وہ زندیق ہو جائے گا۔ [1] امام شافعی کا قول ہے کہ اہلِ کلام کے بارے میں میرا حکم یہ ہے کہ انہیں کوڑے اور جوتے مارے جائیں ، اور انہوں نے گلی محلوں میں رسواء کیا جائے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ کتاب و سنت کو چھوڑ کر کلام کی طرف متوجہ ہونے والوں کی سزا ہے۔ [2] امام شافعی فرماتے ہیں : مجھے اہلِ کلام کی ایسی ایسی باتوں کا علم ہوا ہے میرا نہیں گمان کہ کوئی مسلمان ان باتوں کا قائل ہو، اور بندے کا شرک کے سوا رب تعالیٰ کی جملہ نافرمانیوں میں مبتلا ہونا اس کے کلام میں مبتلا ہونے سے پھر بہتر ہے۔[3] ان لوگوں کی مذمت میں متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ جیسے ابو عبدالرحمن السلمی [4] نے اور شیخ الاسلام انصاری[5] وغیرہ نے کتابیں لکھی ہیں ۔ رہا عقل کی جہت سے تو یہ ایک مجمل لفظ ہے جس میں اس کی نفی کرنے والے ایسے معانی کو داخل ہیں جن کا اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت کرنا واجب ہوتا ہے، اور اس کے اثبات کرنے میں اس میں ایسے معانی کو داخل کرتے ہیں جن سے رب تعالیٰ کی ذات بری ہے تو جب اس لفظ سے متکلم کی مراد ہی معلوم نہیں تو یہ اس کی نفی ہوگی اور نہ
[1] یہ عبارت علامہ ہروی اصفاوی کی کتاب ذم الکلام میں وارد ہے۔ جسے سیوطی نے ان سے ’’صون المنطق والکلام عن فن المنطق والکلام، ص: ۶‘‘ میں نقل کیا ہے۔ [2] تلبیس ابلیس لابن الجوزی، ص: ۸۲ ۔ ۸۳۔ [3] جامع بیان العلم وفضلہ: ۲؍ ۹۵۔ لابن عبدالبر۔ [4] یہ ابو عبدالرحمن محمد بن حسین بن محمد السلمی النیشاپوری ہیں ۔ [5] یہ ابو اسماعیل عبداللہ بن محمد بن علی الہروی انصاری ہیں ۔