کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 772
ہے اور رب تعالیٰ کی صفات کو بندے کی صفات جیسا قرار دینا ہے۔ تب بھی اہل سنت واجماعت نہ تو ناصبی ہیں اور نہ مشبّہ ہیں ، اور اگر اس سے تیری مراد یہ ہے کہ خلفاء سے محبت رکھتے ہیں اور رب تعالیٰ کی صفات کا اثبات کرتے ہیں تب پھر تو ان کا جو چاہے نام رکھ لے۔ یہ تو بس کچھ نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء و اجداد نے رکھ لیے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کوئی سند نہیں اتاری۔ مدح و ذم اسماء سے متعلق جب ہوتے ہی جب ان کی شرح میں کوئی اصل ہو۔ جیسے مومن اور کافر، فاجر اور فاسق اور جاہل اور عالم کے الفاظ۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جو کسی کی مدح یا مذمت کرنا چاہتا ہے، اس پر لازم ہے کہ ممدوح و مذموم کا ان اسماء و القاب میں داخل ہونا ثابت کرے جن پر مدح و ذم کا انحصار ہے۔ جب وہ اسم و لقب ہی شرعاً ثابت نہ ہو اور ممدوح و مذموم کا اس میں داخل ہونا بھی متنازع ہو تو مدح و ذم دونوں باطل ٹھہرے۔ اور یہ ایسا کلام ہے جس پر صرف وہی انسان اعتماد کرسکتا ہے جس کو یہ پتہ نہ ہو وہ کیا کہہ رہا ہے۔ [ کیونکہ اس نام والوں میں کتاب و سنت کی رو سے متعدد مذموم باتیں داخل ہو جاتی ہیں ۔ جیسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنا، رسول اللہ تعالیٰ کے لائے ہوئے حق کو جھٹلانا، اولیاء اللہ تعالیٰ سے عداوت رکھنا، اور یہود و نصاریٰ اور مشرکین سے دوستی رکھنا وغیرہ]۔
اور یہ ممکن ہی نہیں کہ اہل سنت والجماعت کو کتاب و سنت کی رو سے کوئی مذموم لفظ شامل ہو۔ جیسے ان رافضہ کو شامل ہے۔ البتہ بعض کی بابت مذموم لفظ آتا بھی ہے۔ لیکن اس سے سب اہل سنت کی مذمت لازم نہیں آتی۔ جیسے مسلمانوں میں سے کوئی اگر قابلِ مذمت کوئی کام کرے تو اس سے پورے اسلام کی اور واجباتِ اسلام پر قائم مسلمانوں کی مذمت لازم نہیں آتی۔ [1]
یہ امر پیش نظر رہے کہ کتاب و سنت میں ناصبہ، حشویہ، مشبہہ اور رافضہ کے الفاظ مذکور نہیں جب ہم رافضہ کا لفظ بولتے ہیں تو ہماری مراد اس سے شیعہ فرقہ کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ان کے سب فرقے اس میں داخل ہیں گویا رافضہ کا لفظ جہلاء اور محروم صدق و یقین لوگوں کے لیے علم و لقب کی حیثیت رکھتا ہے۔
چوتھی وجہ: یہ کہا جائیگا: یہ قول کہ اللہ تعالیٰ جسم ہے یا نہیں ، اس بات میں اہل کلام و نظر نے اختلاف کیا ہے اور یہ بات مسائلِ عقلیہ میں سے ہے، اور لوگوں کے اس بارے تین اقوال ہیں ، جیسا کہ گزرا: (۱) نفی اور اثبات کا (۲) توقف کا (۳) تفصیل کا، اور یہی وہ درست قول ہے جس پر اسلاف اور آئمہ قائم ہیں ۔
[1] اہل بیت کے ساتھ عظیم ترین بغض یہ ہے کہ ان پر جھوٹ کا طوفان باندھا جائے اور دین میں ایک ایسے فرقہ کی طرح ڈالی جائے جو ان کے جد امجد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے ٹکراتا ہو۔ اور پھر اس سے بڑھ کر ظلم و بہتان اور کیا ہوگا کہ امت محمدی کے ان چیدہ و برگزیدہ اصحاب کو مورد طعن بنایا جائے، جوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے بھائی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک عزت و وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اہل بیت کے ساتھ یہی وہ بدترین بغض ہے شیعہ جس کا عرصہ دراز سے ارتکاب کرتے چلے آرہے ہیں ۔ اور جو نہی زمانہ گزرتا ہے، ان کا یہ بغض بڑھتا ہی جاتا ہے۔ جیساکہ آپ اس کتاب میں آگے چل کر ملاحظہ فرمائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ نہج البلاغۃ کے اوراق مذمت صحابہ رضی اللہ عنہم سے پر ہیں اور کوئی شیعہ عالم ایسا نہیں جس نے صحابہ کی مذمت نہ کی ہو اور ان سے براء ت کا اظہار نہ کیا ہو۔