کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 771
بندوں کو شامل ہے۔ چنانچہ امام احمد رحمہ اللہ سب سے زیادہ سعادت مند، اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ طاقت گزار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ تابع فرمان تھے۔
اگر فرض کیا کہ حنبلیہ میں یا اہل سنت کی دوسری جماعتوں میں باطل اقوال والے بھی ہیں تو ان کے باطل اقوال کی وجہ سے اہل سنت والجماعت کا مذہب باطل نہ ہوگا۔ بلکہ وہ باطل قول اسی پر رد ہوگا، اور سنت کی دلائل کے ساتھ مدد کی جائے گی۔
روافض نے اپنی ڈفلی الگ سے بجانا شروع کی، ہر زاویہ نگاہ کے مسلمانوں کو تنقید شدید کا نشانہ بنایا اور کہنے لگے کہ وہ اصول و فروع دونوں کو ترک کر چکے ہیں ۔اور صرف شیعہ ہی ایک ایسا فرقہ ہے جو جرح و قدح سے بالا ہے۔ حالانکہ کرۂ ارضی کے تمام سلیم العقل مسلمان اس امر میں اتفاق رائے رکھتے ہیں کہ اہل قبلہ کے تمام فرقوں میں شیعہ کا گروہ جہالت و ضلالت اور کذب و بدعت میں سب پر فوقیت رکھتا ہے۔ یہ گروہ ہر شر سے قریب تر اور ہر خیر سے بعید تر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ نے جب مختلف فرقوں کے عقائد و افکار پر : ’’ مقالات الاسلامیین‘‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تو سب سے پہلے شیعہ کے عقائد کا ذکر کیا اور اسے اہل سنت والحدیث کے افکار و آراء پر ختم کیا ۔اور ساتھ ہی یہ بھی تحریر کیا کہ وہ خود بھی اہل سنت ومحدثین کے عقائد رکھتے ہیں اور اسی مسلک پر گامزن ہیں۔
مذکورۃ الصدربیانات اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ شیعہ مصنف کا اہل الآثار [1] والاثبات کو مشبہہ کے نام سے موسوم کرنا بعینہ اسی طرح ہے جیسے شیعہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کے قائل کو اس لیے ناصبی کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا عقیدہ اسی صورت میں درست تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ جب خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم سے براء ت کے اظہار کیا جائے۔ حالانکہ ناصبی دراصل وہ ہے جو اہل بیت سے بغض و عناد رکھتا ہو۔ اور ان لوگوں سے براء ت اختیار کی جائے گی، اور جو بھی ان سے بری نہ ہوگا اسے ناصبی کہیں گے۔ چاسی طرح مشبہہ وہ ہیں جو صفات الٰہی کو بندوں کی صفات کی طرح خیال کرتے ہیں ۔ جیسا کہ جب ان لوگوں نے یہ عقیدہ اپنا لیا کہ دو قدم متماثل ہوتے ہیں اور دو جسم متماثل ہوتے ہیں ۔ وغیرہ تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو ثابت ماننے والوں کو مشبّہ کہنے لگے۔
سو اس قول کے قائل کو کہا جائے گا کہ: اگر تو ناصبیت اور تشبیہ سے تیری مراد حضرت علی اور اہلِ بیت کا بغض
[1] اہل الآثار وہ ہیں جو خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول احادیث و آثار کی پیروی کرتے ہیں ، اس لیے کہ آپ نیکی کی تعلیم دینے اوراﷲ کی طرف سے ہدایت اور دین حق دے کر مبعوث کیے گئے تھے۔ اہل الاثبات وہ ہیں جو اﷲ و رسول کے ثابت کردہ غیبی امور کا اثبات کرتے ہیں ، صفات الٰہی بھی غیبی امور میں سے ہیں ، اور وہ ان پر ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ کی شرط کے مطابق ایمان رکھتے ہیں ، جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ صفات کی تاویل کرتے ہیں نہ ان میں تبدیلی کا ارتکاب کرتے ہیں ، اس لیے کہ مخلوقات میں غیبی امور کا علم رکھنے والا اﷲ و رسول سے زیادہ اور کوئی نہیں ۔