کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 770
طرح مرجیۂ کے سب فرقے امام کے خلاف امنڈ آئے تھے۔ جہمیہ و معتزلہ کے مابین نسبت یہ ہے کہ ہر جہمی کا معتزلی ہونا ضروری نہیں ، اور ہر معتزلی، جہمی ضرور ہوتا ہے۔ البتہ جہم کا قدم نفی صفات میں معتزلہ سے آگے ہے اس لیے کہ وہ اسماء و صفات الٰہی دونوں کی نفی کرتا ہے۔ بخلاف ازیں معتزلہ صرف صفات کے منکر ہیں ۔ بشر مریسی کبار جہمیہ میں سے تھا اور مرجیہ کا ہم نوا تھا، وہ معتزلی نہ تھا۔ [حامی سنت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مبتلائے مصائب ہونے کی وجہ سے مذکورۃالصدرمسائل میں بڑے زور کے معرکے بپا ہونے لگے۔ انہی حوادث میں مبتلا ہونے کی بنا پر امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے اتباع کرام بارگاہ ربانی میں بڑے اونچے مرتبہ پر فائز ہوئے]۔
اور جب خلیفہ معتصم کے سامنے ان لوگوں کا معاملہ ظاہر ہوا اور اس نے ان لوگوں پر سے اس سزا کو ختم کر دینا چاہا، حتیٰ کہ ابن ابی داؤد[1] نے اسے پرزور مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر تو نے انہیں سزا نہ دی توخلافت کی ناموس جاتی رہے گی ۔ چنانچہ خلیفہ نے امام احمد رحمہ اللہ کو سزا دی جس پر خاص اور عام سب میں بے حد رسوائی ہوئی۔ جس پر بالآخر خلیفہ نے ان لوگوں کو چھوڑ دیا۔
پھر یہ امور مسائلِ صفات میں اور اس بارے نصوص و دلائل اور مشبّہ و نفاۃ دونوں جانب کے فرقوں کے پیش کردہ شبہات کی بابت بحث و تمحیص کا سبب بن گئے، اور لوگوں نے اس بارے متعدد کتب بھی لکھیں ۔
امام احمد وغیرہ علمائے سنت و حدیث نے ہمیشہ سے روافض، خوارج، قددیہ، جہمیہ، مرجئہ وغیرہ گمراہ فرقوں سے لوگوں کو آگاہ کیے رکھا ہے۔ البتہ آزمائش کی وجہ سے بے حد کلام ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس امام کے رتبے کو بلند کیا اور نصوص و آثار پر اپنی وسعت معلومات، دسترس اور گرفت کی وجہ سے اور ان کے مخفی اسرار کو آشکارا کرنے کی وجہ سے آئمہ سنت کے امام اور علم کی ایک نشانی ٹھہرے۔ نا اس لیے کہ انہوں نے کوئی نئی بات کی یا کسی بدعت کی نیو ڈالی تھی۔
اس لیے مغرب کے بعض شیوخ کہتے ہیں : مذہب تو امام احمد اور امام شافعی ہے۔ لیکن غلبہ امام احمد کو ملا۔ یعنی اصول میں تو سب آئمہ کا مذہب ایک ہے۔ البتہ امام احمد اور ان کے اصحاب کی تخصیص یہ ہے کہ انہوں نے امامت اور اعتزال کے مسائل میں گفتگو کی تھی۔ اسی طرح انہوں نے حروریہ کے ساتھ بھی متعدد مسائل میں کلام کیا تھا۔ بلکہ موصوف نے ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت میں بھی بھرپور کلام کیا اور یہود و نصاریٰ پر زبردست ردّ
کیا۔ اور بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دی خبروں کی تصدیق اور آپ کے اوامر کی تعمیل لازم ہے، اور یہ تعمیل سب
[1] یہ ابو عبداللہ احمد بن ابی داؤد بن جریر بن مالک الایادی قاضی ہے۔ ۱۶۰ھ میں پیدا ہوا۔ ان کا والد انہیں بچپن میں ہی قنسرین سے دمشق لے آیا۔ وہاں واصل بن عطاء کے ساتھی ہیاج بن علاسلمی کی صحبت میں رہے اور اعتزال کو اختیار کر لیا۔ مامون، معتصم اور واثق سے جڑا رہا۔ ان کا مقرب تھا۔ یہی وہ شخص تھا جس نے خلیفہ کو اس بات پت تیار کیا تھا کہ وہ لوگوں کو قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ اپنانے پر تیار کرے اور جو نہ مانے اسے سزا دے۔ ابو عبداللہ نے ۲۴۰ھ میں بغداد میں مفلوج ہو کر وفات پائی تھی۔ دیکھیں : وفیات الاعیان: ۱؍ ۶۳ ۔ ۷۵۔