کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 77
اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [التوبۃ ۳۱] ’’انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں ، کوئی معبود نہیں مگر وہی ، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں ۔‘‘ سنن ترمذی میں حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے ؛ انہوں نے اس آیت کوسن کر کہا تھا : ’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے اپنے درویشوں کی بندگی تو نہیں کی ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ بیشک انہوں نے ان پر حلال چیز کو حرام کیا ‘ اور حرام کو حلال کیا اور لوگوں نے ان کی اطاعت کی ؛ تو یہی چیز عوام کی طرف سے ان کی عبادت کرنا تھی ۔‘‘ [ سنن الترمذي ۴؍۳۱۴۔ وقال: غریب۔] ان لوگوں نے تو زندہ اور موجود لوگوں کواپنا رب بنالیا تھا ‘ جب کہ یہ لوگ حلال و حرام کو ایسے معدوم امام کے ساتھ معلق کیے ہوئے ہیں جس کی کوئی حقیقت ہی نہیں ۔ اور پھر یہ لوگ جو بھی کام کرتے ہیں اس کو ثابت کرنے کیلئے کہتے ہیں کہ : ’’ امام نے ان کے لیے اسے حلال کیا ہے ‘ یا پھر امام نے ہی ان پر یہ چیز حرام کی ہے ۔‘‘ خواہ یہ کام کتاب و سنت اور اجماع امت اور سلف صالحین کے عمل کے مخالف ہی کیوں نہ ہو۔ ان کی حالت تو یہ ہے کہ جب ان کے دو گروہوں میں اختلاف ہوجاتا ہے تو اس وقت وہ قول قابل حجت ہوتا ہے جس کا کہنے والا معلوم نہ ہو۔اس لیے کہ یہی امام معصوم کا قول ہوسکتا ہے ۔ پس اس کی روشنی میں وہ اس چیز کو حلال سمجھتے ہیں جو امام حلال قرار دے ‘ اور اس چیز کوحرام سمجھتے ہیں جس کو امام حرام قرار دے ۔ یہ بات کسی بھی دوسرے فرقہ کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ اور یہی ان لوگوں کا مذہب بھی ہے جو کہتے ہیں : امام کو کوئی بھی نہیں جانتا ‘اور نہ ہی اس سے ایک کلمہ بھی روایت کرنا ممکن ہے۔ ان کی حماقتوں کی ایک مثال یہ ہے کہ جس سے یہ لوگ بغض رکھتے ہیں ‘ تو اس کا ایک پتلا بنالیتے ہیں ؛ یہ پتلا کبھی تو جمادات سے بناتے ہیں ؛ اور کبھی حیوان وغیرہ سے۔اورپھر اس جماد یا حیوان کو وہ سزا دیتے ہیں جو ان کی نظر میں اس ناپسندیدہ آدمی کی ہوسکتی ہے جس کا یہ پتلا بنایا گیا ہے۔اور کبھی مینڈھے کو اس کی شکل قرار دیتے ہیں ۔اور کبھی کبھار یہ مینڈھا سرخ رنگ کا ہوتا ہے ‘ اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پیار سے حمیراء [گوری ] کہا جاتا تھا۔[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو پیار سے ان الفاظ میں پکارتے تھے ]۔ پھر اس مینڈھے کو عائشہ رضی اللہ عنہا قرار دیکر اسے تکلیف دیتے ہیں ‘ اور اس کے بال نوچتے ہیں ۔اس عمل سے ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ اس طرح عائشہ رضی اللہ عنہا کو تکلیف ہوتی ہوگی۔