کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 769
نے اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا۔ جو اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک بدعتی ٹھہرے گا۔ اس لیے کہ اجماع صحابہ کی حجیت میں سب اہل سنت متحد الخیال ہیں اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ، البتہ علماء اس امر میں مختلف الخیال ہیں کہ آیا صحابہ کے بعد آنے والے حضرات (تابعین و تبع تابعین) کا اجماع حجت ہے یا نہیں ؟ فتنہ خلق قرآن اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا دور ابتلاء: حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو امام اہل سنت اور امام الصابرین قرار دینے کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ کسی مسئلہ میں باقی ائمہ سے منفرد تھے یا آپ نے بذات خود کوئی قول گھڑ لیا تھا ۔بخلاف ازیں اس کی وجہ یہ تھی کہ سنت آپ سے پہلے موجود تھی اور لوگ اس سے آشنا چلے آتے تھے۔ آپ نے صرف یہ کیا کہ سنت کی نشرو اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، ترک سنت پر مجبور کیا گیا تو اس ابتلاء میں صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا۔ باقی ائمہ دور ابتلاء سے قبل وفات پا چکے تھے۔ جب تیسری صدی ہجری کے اوائل میں خلیفہ مامون اوراسکے بھائی معتصم اور واثق باﷲ کے عہد خلافت میں صفات الٰہی کا انکار کرنے والے جہمیہ نے انکار صفات کا بیڑا اٹھایا.... جسے متاخرین شیعہ نے بھی تسلیم کر لیا تھا.... بہت سے امراء و حکام بھی اس ضمن میں جہمیہ کے ہم نوا بن گئے، تو اہل سنت نے اس نظریہ کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ارباب اقتدار نے بعض علماء کو قتل کی دھمکی دی۔ بعض کو قید و بند کی صعوبتوں میں ڈالا اور ہرطرح سے ڈرایا دھمکایا اور لالچ دلا کر اس نظریہ سے باز رکھنا چاہا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے عقیدہ پر ڈٹے رہے جس کے نتیجہ میں انہیں عرصہ دراز تک محبوس رکھا گیا۔ آخر مناظرہ کی ٹھانی اور اس مقصد کیلئے معتزلی علماء کو بلایا مگر سب نے منہ کی کھائی۔ امام اہل سنت کے سامنے لاجواب ہوگئے اور آپ کو دلائل کے ساتھ قائل نہ کر سکے۔ دوسری جانب امام موصوف نے ان کی ایک ایک غلطی کی قلعی کھول کر رکھ دی، اور ان کے دلائل کی دھجیاں فضائے آسمانی میں بکھیر دیں ۔ مخالفین نے مناظرہ کے لیے بصرہ اور دیگر اسلامی بلاد و امصار کے بڑے بڑے ماہرین علم الکلام کو بلایا تھا‘ جن میں حسین نجار کے تلمیذ ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ برغوث کا نام اور اس کے ہمنواء خاص طور سے قابل ذکر ہیں ۔[1] یہ مناظرہ صرف فرقہ معتزلہ ہی کے خلاف نہ تھا، بلکہ جہمیہ کے سب فرقے مثلاً معتزلہ، نجاریہ، ضراریہ اور اسی
[1] فالأشعرِی یذکر آراہ المقالاتِ 1؍316) ومِنہا نہ ان یزعم ن الأشیاء المتولِد فِعل اللہ تعالیٰ بِِإیجابِ الطبعِ، ونہ ان یقول فِی التوحِیدِ بِقولِ المعتزِلِ ِلا فِی بابِ الِرادِ والجودِ، ونہ ان یخالِفہم فِی القدرِ ویقول بِالِرجاِ، ونہ ان یقول ِن اللہ تعالیٰ لم یزل متلِما بِمعن نہ لم یزل غیر عاجِز عنِ اللامِ ولِن لام اللہِ محدث ومخلوق. وانظر عن آرائِہِ ومذہبِہِ یضا: المقالاتِ 2؍198، 207 ۔ 208 ; الملل والنحل 1؍81 ۔ 82 ; الفرق بین الفِرقِ، ص 126 ۔ 127 ; التبصِیر فِی الدِینِ ص 62 ; الفِصل لِابنِ حزم 3؍33 ; الِانتِصار لِلخیاطِ، ص 98 ; دائِرۃ المعارِفِ الإِسلامِیِ مادۃ البرغوثِیِ المنی والمل لِابنِ المرتض1948.۔