کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 768
ہے، اور کرامیہ رب تعالیٰ کے لیے جسم ہونے کے قائل ہیں ، اور دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ قول اجسام کے تماثل پر مبنی ہے، اور اکثر عقلاء کا یہ کہنا ہے کہ اجسام باہم متماثل نہیں ہیں ، اور جو معتزلہ اور ان کے ہم نواء اس کے قائل ہیں ۔ جیسے اشعریہ اور حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور حنبلیہ کے فقہاء کی ایک جماعت ان کے پاس اجسام کے تماثل کی سرے سے کوئی دلیل نہیں ۔ جیسا کہ یہ بات اپنے مقام پر مفصل مذکور ہے۔
اس بات کا ان کے فضلاء نے بھی اعتراف کیا ہے۔ جیسا کہ علامہ آمدی نے ’’ابکارالافکار‘‘ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس اجسام کے تماثل کی کوئی دلیل نہیں ۔ سوائے جواہر کے تماثل کے، اور جواہر کے تماثل پر بھی ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔
اشعری نے ’’الا بانہ‘‘ میں اس قول کو معتزلہ کا قول کہا ہے۔ جسے انہوں نے رد کیا ہے۔ اب برابر ہے کہ اجسام کا تماثل حق ہو یا باطل۔ پس جس نے رب تعالیٰ کو جسم کہا ہے جیسے ہشام بن حکم اور ابن کرام، وہ بھی اجسام کے تماثل کے قائل نہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ رب تعالیٰ کی حقیقت حقائق میں سے کسی شے کے مثل نہیں ۔ یہ لوگ تشبیہ کے بھی منکر ہیں ۔ پس جب وہ واصف کے اعتقاد پر اس کی تشبیہ کے قائل ہوتے بھی ہیں کہ تشبیہ انہیں لازم ہے تو ہر جماعت کو ممکن ہے کہ وہ دوسری جماعت کو تشبیہ کا قائل ٹھہرائے۔ کیونکہ اس کا بھی یہ اعتقاد ہے کہ یہ اسے لازم ہے۔
پھر معتزلہ اور شیعہ اس بات میں ان کے موافق ہیں کہ رب تعالیٰ کا سب سے خاص وصف اس کا قدیم ہونا ہے، اور یہ کہ جو بھی اس وصف میں اس کے شریک ہوگا وہ بھی قدیم ہوگا، اور جب ہم نے صفتِ قدیمہ کو ثابت کر دیا تو ہم نے تشبیہ کو بھی لازم کر لیا، اور جو بھی صفتِ قدیمہ کو ثابت کرتا ہے وہ ’’مشبّہ‘‘ ہے، اور یہ صفات ثابت کرنے والے سب لوگوں کو اسی بنا پر مشبّہ کہتے ہیں ۔
اگر یہ امامی یہ کہتا ہے کہ: میں اس کا التزام کرتا ہوں ۔
تو جواب یہ ہے کہ: تو نے تناقض سے کام لیا ہے۔ [شیعہ مصنف کی یہ ستم ظریفی موجب حیرت و استعجاب ہے کہ وہ] بعض الفاظ کو استعمال تو کرتا ہے مگر ان کے معنی اور موارد کے استعمال سے قطعی نابلد ہوتا ہے۔ وہ خود ہی ایک بنیادقائم کرتا ہے، اور پھر اسی مفروضہ اساس پر اپنے خیالات کی عمارت استوار کرنا شروع کر دیتا ہے۔
۔واللہ اعلم۔ یوں لگ رہا ہے کہشیعہ مصنف جہاں حشویہ مشبہہ کا ذکر کرتا ہے، وہاں اس کی مراد عراق وبغداد کے حنابلہ ہوتے ہیں ۔ یہ اس کی جہالت کا بین ثبوت ہے، اس لیے کہ حنابلہ باقی اہل سنت سے کسی قول میں بھی منفرد نہیں ہیں ۔ اور وہ وہی عقائد رکھتے ہیں جو باقی اہل سنت کے ہیں ۔ یہ حقیقت اپنی جگہ پر واضح ہے کہ اہل سنت والجماعت کا مذہب قدیم بھی ہے اور معروف و مشہور بھی۔ یہ اس وقت بھی معروف تھا، جب امام ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مذہب ہے، جنہوں