کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 766
کسی ایک کے اثبات میں کوئی ممانعت والی بات نہیں ہے۔ ممانعت تو اس وقت ہوتی ہے جب ایک کے خصائص کو دوسرے میں ثابت کیا جائے۔ جب ہم کہتے ہیں :’’خصائص کا اثبات ‘‘ تو اس سے مراد وہ اثبات ہے جو اسی چیز کے ساتھ خاص ہے۔ وگرنہ اس کی عین کا اثبات مطلقاً ممتنع ہے۔ اسماء اور صفات دو اقسام پر ہیں ۔ایک قسم جورب سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں ۔ مثلاً الوہیت؛ اور رب العالمین ہونا؛ اور اس طرح کی دیگر صفات ۔ پس ایسی چیزیں کسی بھی صورت میں کسی بندے کے لیے ثابت نہیں کی جاسکتیں ۔ پس یہاں سے مشرکین کی گمراہی کا آغاز ہوتا ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرایا ۔ دوسری قسم :.... جس سے اجمالی طور پر بندے کو موصوف کیا جاسکتا ہے ۔جیسے حی؛ قادر اور عالم ۔تو ان میں بھی بندے کے لیے اس طرح کا اثبات کلیۃً جائز نہیں ہے جیسا اثبات رب سبحانہ و تعالیٰ کے لیے کیا جاتا ہے۔ بلا شک و شبہ ؛اگر اللہ تعالیٰ کے لیے بھی ویسی صفات کا اثبات کیا جائے؛ جیسے بندے کے لیے ہے؛ تو اس سے لازم آتا ہے کہ ان میں سے ایک دوسرے پر تجاوز کرے۔ اوراس پر بھی وہی واجب ہوتا ہے؛ جو دوسرے پر واجب ہے۔اور اس کے لیے بھی وہی ممتنع ہے جو دوسرے کے لیے ممتنع ہے۔ اس سے اجتماع نقیضین لازم آتا ہے؛ جیسا کہ اس سے پہلے اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ جب یہ کہا جائے کہ: یہ ان امور میں لازم آتا ہے جس میں یہ دونوں متفق ہوں ؛ جیسے وجود ؛ علم اور حیات ۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گاکہ: ان امور کے تین اعتبارات ہیں : اول:.... جو رب سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں ۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے حق میں واجب ہے؛ اور بندے کے لیے ممتنع ہے؛ بندے کا اس میں کوئی نصیب نہیں ہے۔ دوسری قسم :.... جو صرف بندے کے ساتھ خاص ہیں ۔ جیسے بندے کا علم ؛ اس کی قدرت اور حیات۔ پس جب بندے پر حدوث اورعدم جائز ہے؛ اور یہ اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت اور حیات سے متعلق نہیں ہوتے؛ توبیشک ان میں کوئی اشتراک نہیں ہے۔ تیسری قسم :.... مطلق کلی: یعنی مطلق حیات؛ علم اورقدرت۔ پس یہ مطلق ؛ جو کچھ اس میں واجب ہے؛ تو وہ ان دونوں کے لیے واجب ہے؛ اور جو کچھ ایک پر جائز ہے؛ وہ در حقیقت دونوں کے لیے جائز ہے۔ اورجو اللہ تعالیٰ پر ممتنع ہے؛ وہ ان دونوں پر ممتنع ہے۔ پس واجب ہوتا ہے کہ یوں کہا جائے: یہ جہاں بھی ہو؛ صفت کمال ہوتی ہے۔پس زندگی؛ علم ؛ اور قدرت ہر موصوف کے حکم میں صفت کمال ہوتی ہے۔ تو ان کے لیے کسی بھی دوسری صفت کے ساتھ اقتران؍ جوڑ جائز ہے؛ جیسے سمع؛ بصر؛ اور کلام۔پس ان صفات کو کسی بھی دوسری ایسی صفات سے ہر جگہ پر ملانا جائزہے۔ ہاں اگر وہاں پر کوئی اور محلی مانع ہو؛ صفت کے اعتبار سے نہیں ۔ اور جہاں تک ان دونوں پر امتناع کا تعلق ہے ؛ تو ایسے