کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 765
میں ہے؛ وہ کلام ہے جس کے معنی کا تصور جواب دینے والا کرسکتا ہے۔ ماہیت کو تصور ذہنی سے تعبیر کیا گیا ہے؛ جبکہ وجود خارج میں کسی چیز کی حقیقت کو کہتے ہیں ۔
لیکن ان لوگوں نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا؛ بلکہ ان کا خیال یہ بھی ہے کہ اشیاء کی ماہیت خارج میں ثابت ہے؛ اوریہ اعیان موجودہ کے علاوہ ہوتی ہیں ۔ اس بات کا غلط ہونا ضرورت کے تحت معلوم شدہ ہے۔پس بیشک جس مثلث کو خارج میں اس کے وجود سے پہلے آپ جانتے ہیں ؛ وہ مثلث صرف آپ کے ذہن کا ایک تصور ہے؛ خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ورنہ یہ بات ممتنع ہے کہ آپ خارج میں موجود مثلث کی حقیقت کو خارج میں اس کے وجود سے پہلے جان جائیں ۔ پس جو کچھ خارج میں ہے اس کی حقیقت کا علم اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک اس کے وجود کا علم نہ ہو۔ اور جس چیز کی حقیقت کا علم اس کے وجود سے پہلے ہوجائے؛ تو بعد میں اس کی حقیقت صرف ذہن میں ہی ہوسکتی ہے۔
پس اسی باب سے گمان کرنے والوں نے گمان کیا ہے کہ : ہمارے لیے خارج میں مجرد عدد؛ یا مجرد مقدار موجود ہے۔یہ تمام باتیں غلط ہیں ۔یہ مسئلہ دوسری جگہ پر پوری تفصیل کے ساتھ بیان کردیاگیا ہے۔یہاں پر صرف اس پر تنبیہ کرنا تھی۔اس لیے کہ بہت سارے اکابرین اہل مناظرہ ؛ صوفیہ :اور فلاسفہ اورمتکلمین اور ان کے اتباع کار فقہاء صوفیاء؛وجود خالق کے مسئلہ میں گمراہی کا شکار ہوئے ہیں ؛ جو کہ تمام مسائل کا سردار مسئلہ ہے اور جس کسی نے اس شبہ کی وجہ سے ان کے کلام کامطالعہ کیا ؛ اس پر یہ معاملہ ملتبس ہوگیا۔اور ہم نے خصوصی طور پر اس سلسلہ میں ’’مسئلہ کلیات ‘‘ میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ کیونکہ اس کی ضرورت عام تھا؛ اور مسئلہ بہت ہی فائدہ بخش تھا جس سے شبہات کا ازالہ ہوسکتا تھا۔
اس سے منکرین صفات کی لفظ تشبیہ میں غلطی واضح ہوتی ہے۔ پس بیشک یہ کہا جاسکتا ہے کہ : جس چیز کی رب تعالیٰ سے نفی کی جاسکتی ہے؛ وہ اس کا مخلوق کی صفات سے متصف ہونا ہے۔ یا پھر بندہ کے لیے کوئی ایسی چیز ثابت کی جائے جس میں اسے رب کے مماثل قرار دیا جائے۔ہاں مگر جب یہ کہا جائے:حی ؛ اور حی؛ عالم اور عالم ؛ اورقادر اور قادر؛ یا یوں کہا جائے کہ : اس کی بھی ایک قدرت ہے؛ اوراس کی بھی ایک قدرت ہے؛ اس کا بھی علم ہے؛اور اس کا بھی علم ہے؛ تو پھر نفس علم ِ رب سبحانہ و تعالیٰ میں کوئی بندہ اس کا شریک نہیں ہوسکتا۔ اور بندہ کے علم کے ساتھ رب سبحانہ و تعالیٰ کو موصوف نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام چیزوں سے بلندو بالا ہیں ؛ اور یہی حال باقی صفات میں بھی ہے۔ ان کی آپس میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔
جب علماء کرام مسمیٰ علم میں متفق ہوتے ہیں ؛اور دو عالم مسمیٰ عالم میں متفق ہوتے ہیں ؛ تو ایسی تشبیہ کی نہ ہی عقلاً نفی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی شرعاً۔ اور نہ ہی وجود صانع کی نفی کے بغیر اس کی نفی ممکن ہے۔
پھر موجود اور معدوم اتنی سی بات میں مشترکہ قدر رکھتے ہیں کہ ہر دو معلوم اور مذکور ہیں ۔ لیکن ان میں سے