کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 762
یہ غلط ہے۔ بیشک کسی کہنے والے کا یہ قول کہ :’’وہ دونوں مسمیٰ الوجود میں مشترک ہیں ؛ یعنی اس میں متاشبہ ؛ اور متفق ہیں ؛ تو پس یہ بھی موجود ہے؛ اور یہ بھی موجود ہے؛ اور ان میں سے ایک دوسرے کے ساتھ نفس وجود میں کسی بھی صورت میں شریک نہیں ہوسکتا۔
جب یہ کہا جائے کہ : یہ دونوں وجود مطلق کلی میں مشترک ہیں ؛ تو وہ مطلق کلی ؛ صرف ذہن میں مطلق کلی ہوسکتا ہے۔ خارج میں ایسا مطلق کلی نہیں ہے جو آپس میں مشترک ہوں ۔ بلکہ ان میں سے ایک دوسرے کا حصہ ہوتا ہے۔ اور دوسرا پہلے کا حصہ ہوتا ہے۔ اور ہر دو حصے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں ۔
جس کسی نے یہ کہا ہے کہ: مطلق معین کا ایک جزء ہوتاہے؛ اور موجود ؛ اس موجود کا جزء ہوتا ہے۔ اور انسان اس انسان کا جزء ہے۔اگر اس سے مراد یہ ہو کہ معین کا یہ وصف بیان کیا جاسکتاہے؛ اور یہ اس کی صفت ہو سکتی ہے؛ اوراِس کے اُس کی صفت ہونے کے باوجود ؛ جو چیز اس دوسرے کی صفت ہے ؛ اس کی نظیر اس کے دوسرے کے لیے نہیں پائی جاتی ۔ یہ اس کا صحیح معنی ہے۔ لیکن صفت کو موصوف کے جزء کا نام دینا؛ اس کا عند الاطلاق مفہوم نہیں ہے۔ اور اگر اس سے مراد یہ ہو کہ: جو کچھ وجود یا انسان نفسِ معین میں ہوتا ہے؛وہ بعینہ اس دوسرے میں بھی ہوتا ہے تو یہ پھر بلا وجہ انکار ؛ اور مکابرہ ہے ۔
اگر وہ کہے کہ: میری مراد دوسری قسم تھی؛ تو پھر کلام واپس ’’نوع ‘‘ پر چلا جائے گا۔ پس بیشک نوع بھی اسی طرح سے کلی ہوتی ہے۔
کلیات کی پانچ اقسام ہیں : ۱۔ کلیات جنس۔ ۲۔ نوع ۔ ۳۔ فصل۔ ۴۔خاصہ ۔اورعرض عام ۔ اور ان سب میں ایک ہی قول ہے۔ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو خارج میں کلی مطلق موجود ہو۔ اور کلی مطلق صرف اذہان میں ہی ہوسکتی ہے اعیان میں نہیں ۔
جو ان میں عموم اور کلیہ ؛ یا پھر ایسی ترکیب کا دعوی کیا جاتا ہے جیسے جنس اور فصل سے نوع کی ترکیب ہوتی ہے؛ تو یہ عقلی اور ذہنی امور ہیں ؛ خارج میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔ خارج میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ان دونوں کو شامل ہو۔ اور نہ ہی خارج میں کوئی انسان ان دونوں چیزوں سے مرکب ہوتا ہے۔ بلکہ انسان ان دونوں سے اس طرح موصوف ہوسکتا ہے کہ ان دونوں کی نظیر ہر انسان میں موجود ہو؛ یا پھر اس طرح سے کہ اس کی نظیر ہر حیوان میں موجود ہو؛ اوراس طرح سے بھی کہ یہ نظیر ہر ذی روح میں موجود ہو۔
رہ گئی وہ خاص وصف جو اس کے ساتھ قائم ہے؛ اور وہ موصوف؛ جس کے ساتھ یہ وصف قائم ہے؛ تو اصل میں ان کے مابین نہ ہی کوئی اشتراک ہے؛ اور نہ ہی عموم۔ اور نہ ہی وہ عام اور خاص سے مرکب ہے۔یہ وہ موضوع ہے جو کلیات میں کئی ایک اہل منطق کی گمراہی کا سبب بنا ہے۔ اور بہت سارے متکلمین حال کے مسئلہ میں گمراہی کا شکار ہوئے ہیں ۔ پس اسی وجہ سے وہ لوگ غلطی کا شکار ہوئے ہیں جنہوں نے الالٰہیات اور اس سے