کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 759
دونوں احوال کے قائل نہیں ہیں ، بلکہ یہ دونوں کہتے ہیں : کسی چیز کا وجود اس کی عین حقیقت ہوتی ہے۔ تو انہوں نے سمجھا کہ جس نے یہ کہا کہ ہر چیز کا وجود اس کی عین حقیقت ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ کہنا چاہ رہا ہے کہ لفظِ وجود ان دونوں پر اشتراکِ لفظی کی قبیل سے ہے۔ کیونکہ اگر وہ موافق ہوتا تو ان دونوں کے درمیان ایک قدرِ مشترک ہوتی تو ان میں سے ایک دوسرے سے اپنی حقیقت کی خصوصیت کی بنا پر ممتاز ہوتا۔ مشترک ممتاز کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا مشترک وجود ممتاز کرنے والی حقیقت نہیں ہے۔ رازی، آمدی اور ان جیسوں نے سمجھا کہ اس مسئلہ پر صرف یہی قول موجود ہے اور ان لوگوں کا قول موجود ہے جو کہتے ہیں کہ الفاظ موافق ہوتے ہیں ۔اور وہ کہتے ہیں : اس کا وجود اس کی حقیقت سے زائد ہوتا ہے جیسا کہ یہ قول ابو ہاشم اور اس کے معتزلی اور شیعی پیروکاروں کا ہے۔یا ابن سینا کا قول ہے کہ وہ موافق ہے یا مشکوک ہے اس کے باوجود کہ وہ ایسا وجود ہے جو اپنے بارے میں ہر قسم کے ثبوتی معاملات کے سلب ہونے سے مقید ہے۔ بہت سارے باطنیہ اورقرامطہ اور غالی جہمیہ اس طرف گئے ہیں کہ یہ اسماء بندوں میں حقیقت ہیں ؛ اور رب سبحانہ و تعالیٰ میں مجاز ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف اسم ’’ حیی‘‘اور اس طرح کے بعض دوسرے اسماء میں ہے۔ [1] حتی کہ اسم ’’شئی ‘‘ ؛ جہم بن صفوان اور اس کے پیروکاراسے ’’شئی ‘‘ کہہ کر نہیں پکارتے تھے۔ ان سے کہا گیا کہ: بیشک نام تو قادر اور فاعل نے رکھے ہیں ۔ او ران کے نزدیک بندہ کسی بھی چیز پر قادر نہیں ہے اور نہ ہی کسی چیز کا فاعل ہے۔پس اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا نام نہیں رکھا جاسکتا جونام بندوں کا بھی ہے۔ جب کہ ابو العباس ناشی نے اس کے برعکس کہا ہے؛ وہ کہتا ہے : یہ نام رب سبحانہ و تعالیٰ کے حق میں حقیقت ہیں ؛جب کہ بندے کے حق میں مجاز ہیں ۔ [2] جبکہ ابن حزم رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ معانی پر دلالت نہیں کرتے۔ پس علیم کا معنی علم والا ہونا نہیں ؛اور نہ ہی قدیر سے مراد قدرت والا ہونا ہے۔ بلکہ یہ محض اعلام ہیں ۔یہ قول ان لوگوں کے اقوال کے مشابہ ہے جو اشتراک لفظی کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اس غلطی کی بنیاد جو چیزوں پر ہے: ۱۔ صفات کا انکار اورتشبیہ کی نفی میں غلو۔ یا پھر : ۲ ۔ خارج میں کلیات مشترکہ کے ثبوت کا گمان ۔ پہلا قول جہمیہ اور ان کے موافقین منکرین صفات کا ہے؛ وہ کہتے ہیں : جب ہم کہتے ہیں : علیم؛ تو یہ علم پر دلالت کرتا ہے؛ اور قدیر قدرت پر دلالت کرتا۔ تو اسماء کے اثبات سے صفات کا اثبات لازم آتاہے۔ ابن حزم نے بھی اسی کو لیا ہے۔ بیشک وہ اس مسئلہ میں حدیث اور سنت اور پھر امام احمد کی انتہائی تعظیم کے باوجود
[1] مقالات الاشعری ۱؍ ۳۱۲ [2] الملل والنحل للشہرستانی ۱؍ ۷۹