کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 755
تقسیم ہے۔ کیونکہ جو تقسیم ہوتا ہے وہ کسی منقسم میں نہیں رہتا ہے۔‘‘[1] اس پر تفصیلی گفتگو کسی اور مقام پر ہوچکی ہے۔ اس کلام میں جو کچھ غلطیاں ہیں ، وہ بھی وہاں بیان کردی گئی ہیں ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ان کے نزدیک یہ وہ برہان قاطع ہے جس کا توڑ ممکن نہیں ۔ انہیں یہ بات اس لیے بھی پختہ لگتی ہے کیونکہ ان کے غزالی اور رازی جیسے ان کے مخالفین نے اس کا کوئی شافی جواب نہیں دیا تھا۔ بلکہ غزالی تو بعض اوقات اس پر ان کی موافقت کرتے تھے۔ جھگڑے کی وجہ اس چیز کا اثبات ہے جو معنوی طور پر ناقابل تقسیم ہے جسے وہ خارجی طور پر چاہتے ہیں ۔ ان سے کہا جائے گا: ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ وجود میں کوئی ایسی چیز ہے جو اس میں ایک چیز کو دوسری چیز سے ممتاز نہیں کرسکتی۔ اگر وہ کہیں : نقطہ؟ تو ان سے کہا جائے گا: نقطہ، خط اور سطح، ایک، دو اور تین، کبھی ان سے موصوفات سے مجرد یہی مقداریں مراد ہوتی ہیں ۔ اور کبھی ان سے وہ مقدرات مراد ہوتی ہیں جو خارج میں موجود ہوتی ہیں ۔ اگر پہلی چیز مراد ہو تو اس کا تو صرف اذہان میں وجود ہوتا ہے، خارج میں نہیں ۔ خارج میں ایسا کوئی عدد نہیں پایا جاتا جس کا کوئی معدود نہ ہو اور نہ کوئی ایسی مقدار جس کا مقدر نہ ہو۔ نہ کوئی نقطہ، نہ کوئی خط، نہ کوئی سطح، نہ ایک، نہ دو اور نہ تین۔ بلکہ معدودات موجود ہوتی ہیں مثلا: درہم، دانہ اور انسان۔ اور مقدرات بھی ہوتی ہیں مثلا: زمین جس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی ہوتی ہے۔ لہٰذا ہر سطح کی کوئی نہ کوئی حقیقت ہوتی ہے جس سے وہ دوسری سطحوں سے ممتاز ہوتی ہے۔ جس طرح مٹی پانی سے ممتاز ہوتی ہے اور جس طرح ہر جسم کی سطحیں دیگر اجسام کی سطحوں سے ممتاز ہوتی ہیں ۔ اگر وہ کہیں : ناقابل تقسیم چیز سے مراد عقول مجردہ ہیں جن کا فلسفی اثبات کرتے ہیں ۔ لیکن اس چیز کا اثبات ناممکن ہے۔ اس کا تحقق اذہان میں تو ہوسکتا ہے، اعیان میں نہیں ۔ فرشتے جنہیں اللہ تعالیٰ نے رسول کی صفت سے متصف کیا ہے اور ان پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے، ان کے اور ان مجردات کے درمیان اتنا فرق ہے جو صرف کسی اندھے پر ہی مخفی رکھتا ہے۔ جیسا کہ یہ بات کسی دوسری جگہ تفصیل سے بیان کی جاچکی ہے۔ اگر ان کی مراد ناقابل تقسیم واجب الوجود ہے اور وہ کہتے ہیں کہ وہ اکیلا ہے۔ ناقابل تقسیم اور اجزا سے مرکب نہیں ہے۔ تو ان سے کہا جائے گا: اگر اس سے تمہاری مراد صفاتِ باری تعالی کی نفی ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ میں زندگی،
[1] دیکھیے: کِتاب الشِفائِ لِابنِ سِینا، الفن السادِسِ مِن الطبِیعِیاتِ 1 وما بعدہا، ط براغ، تِشِیکوسلوفاکیا، 1956 ص9 87 وما بعدہا، ط. الہیئِۃ العامۃِ لِلکِتابِ، تحقِیق جورج قنواتِی، سعِید زایِد، القاہِرۃ 1395۔