کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 752
کچھ نے کہا ہے: مخلوق مرکب ہے۔ یہ لوگ دو باتوں میں سے ایک کے ضرور قائل ہوں گے: یا تو رب تعالی سے ترکیب کی نفی کریں گے اور اس کیلیے دلیل کے محتاج ہوں گے۔ اس بارے میں ان کے جو بھی دلائل ہیں ، بہت کمزور ہیں ۔ یا پھر یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اس اور اس سے مرکب ہونے کا اثبات کریں گے۔ یہ بہت بیہودہ اور لغو قول ہے۔ لہٰذا یہ دونوں قول چاہے نفی والا ہو یا اثبات والا، دونوں نہایت کمزور ہیں کیونکہ جس بنیاد پر یہ اقوال موجود ہیں ، وہ خود ہی بہت کمزور ہے۔
اس موقع پر عقلاء کی طرف سے خالق اور مخلوق کی صفات کے بارے میں بہت سی باتیں سامنے آتی ہیں ۔ مثال کے طور پر پھلوں کو دیکھیں ، مثلا: سیب اور چکوترا، دونوں کا ایک خاص رنگ، ذائقہ اور خوشبو ہے۔ یہ ایسی صفات ہیں جو ان میں ہمیشہ سے موجود ہیں اور رہتی ہیں ۔ اسی طرح ان کی حرکت بھی ہوتی ہے۔ بعض مناظرین کہتے ہیں : ان پھلوں کی صفات ان کی ذات سے جدا کوئی چیز نہیں ہیں ۔ ان کے نزدیک لفظ سیب میں یہ ساری صفات موجود ہیں ۔ ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ نہیں ، صفات ذات سے زائد ہیں ۔ درحقیقت یہ صرف لفظی جھگڑا ہے۔ کیونکہ اگر ذات سے مراد وہ مجرد ذات ہو جس کا ذہن میں تصور آسکتا ہے تو بلاشبہ اس ذات سے صفات زائد ہی ہوں گی۔ اگر ذات سے وہ ذات مراد ہو جو خارج میں موجود ہے تو وہ ذات ان صفات سے متصف ہے۔ خارج میں ایسی کوئی ذات موجود ہی نہیں جو اپنی لازمی صفات سے متصف نہ ہو۔
لہٰذا خارج میں یہ خیال کرنا کہ ذات صفات سے جدا ہوگی اور یہ سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ صفات زائد ہیں یا نہیں ہیں ، تو ایسا سوچنا بھی غلط ہے۔ جو سوچنا ممنوع ہے، اس کا حکم بھی ممنوع ہے۔
عبد الرحمن بن کیسان اصم جیسے مناظرین کے ایک گروہ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ خارج میں اعراض کے وجود کے منکر ہیں ۔ یہاں تک کہ انہوں نے حرکت کے وجود کا بھی انکار کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں لیکن لگتا یوں ہے کہ ان کا قول صحیح طرح بیان نہیں کیا گیا۔ کیونکہ یہ عاقل لوگ اس طرح کی بات نہیں کرسکتے۔ اور عبد الرحمن الاصم ، اگرچہ معتزلی تھا ، لیکن صاحب ِ فضیلت اور عالم شخص تھا۔ اس نے ایک تفسیر بھی لکھی ہے۔ اس کے شاگروں میں ایک نمایاں نام ابراہیم بن اسماعیل بن علیہ کا ہے۔ ابراہیم فقہ اور اصول فقہ میں امام شافعی وغیرہ سے مناظرے کیا کرتے تھے۔ الغرض یہ لوگ بہت ذہن وفطین تھے۔ اگر کسی مسئلہ میں ان کو غلطی لگی بھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان عام سی باتوں میں بھی یہ گمراہ تھے جو بچے بھی جانتے ہیں ۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے ڈاکٹر اور انجینئر بہت ذہین ہوتے ہیں ۔ طبی اور حسابی معاملات کو خوب جاننے والے ہوتے ہیں ۔ اگرچہ ان میں سے بعض لوگ الہیاتی معاملات میں ٹھوکر کھا جاتے ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ طب اور حساب کے واضح امور میں بھی یہ غلطی پر ہوں گے۔ لہٰذا جو شخص ارسطو اور جالینوس وغیرہ کے طبیعات کے بارے میں ایسے اقوال نقل کرتا ہے جو واضح طور پر باطل ہیں تو سمجھ لیا جائے گاکہ اسے نقل کرنے میں