کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 748
یہ حدیث صحاح میں موجود ہے اور ابن عمر اور ابو ہریرہ وغیرہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ [1] اگر نفی کرنا ہی حق تھا تو رسولوں نے نہ اس کی خبر دی اور نہ اسے لوگوں کیلیے بطور عقیدہ واجب قرار دیا۔ تو جو اس کا عقیدہ رکھتا ہے اور اسے واجب قرار دیتا ہے، تو دین اسلام کی رو سے سبھی جانتے ہیں کہ اس کا دین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے مخالف ہے۔ فصل: منکرین صفات سے مناظرہ کرنے کے لیے تجاویز: یہ بات اس چیز سے بھی واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی عیوب اور نقائص سے تنزیہ پر متفق ہیں ۔ اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ صفاتِ کمال سے متصف ہے۔ لیکن بعض امور میں ان کا آپس میں جھگڑا ہے۔ مثلا: نقص سے مراد صفات کی نفی ہے یا اثبات؟ اسے جاننے کا طریقہ۔ اس امامی مصنف نے معتزلہ اور ان کے پیروکاروں کے طریقہ کار کو اختیار کیا ہے کہ اصلاً رب تعالیٰ کی نقائص سے تنزیہ تبھی ہوسکتی ہے جب اس کے جسم ہونے کی نفی کی جائے۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ کتاب وسنت اور سلف صالحین نے یہ طریقہ کار نہیں اپنایا۔ تو معلوم ہوا کہ شریعت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ ان کے جمہور ساتھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔ لیکن ان کا دعوی ہے کہ یہ بطریق عقل یہ چیز معلوم شدہ ہے۔ ان میں سے اپنے طریقہ کار میں بدنام لوگ کہتے ہیں : یہ بھی باطل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے لازما جسم ہونے کی وجہ سے کچھ نقائص اور عیوب سے تنزیہ ممکن نہیں ہے ۔ کیونکہ کوئی بھی صفت ایسی نہیں کہ جس کے بارے میں کہنے والا کہتا ہے کہ یہ تجسیم کو مستلزم ہے، تو اثبات کے بارے میں جو قول ہے، نفی کے بارے میں وہی قول ہے۔ تو لازم ہے کہ وہ کسی چیز کا اثبات کرے وگرنہ قدیم موجود اور واجب بنفسہ کی نفی لازم آئے گی۔ اس وقت کسی صفت کے بارے میں کہے گا: یہ صرف کسی جسم کی ہی ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ اسے وہی کچھ کہا جائے جو اثبات میں کہا گیا تھا۔ اگر وہ
[1] امام بخاری روایت کرتے ہیں : 6؍126 ِکتاب التفسِیرِ، الزمرِ] اور امام مسلم بھی: 4؍2147 ؛ أول کِتابِ صِفۃِ القِیامۃِ والجنۃِ والنارِ۔ عنِ ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ قال: جاء حبر الأحبارِ إِلی رسولِ اللہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال: یا محمد، ِإنا نجِد أن اللہ تعالیٰ یجعل السماواتِ علی ِإصبع۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : علما یہود میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا : اے محمد! ہم تورات میں پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر رکھ لے گا اس طرح زمین کو ایک انگلی پر ، درختوں کو ایک انگلی پر ، پانی اور مٹی کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر ، پھر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دانت دکھائی دینے لگے ۔ آپ کا یہ ہنسنا اس یہودی عالم کی تصدیق میں تھا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی: ﴿ وَمَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَالْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَالسَّمٰوٰتُ مَطْوِیَّاتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ (الزمر67) ’’اور انھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ زمین ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہو ئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بنا رہے ہیں ۔‘‘