کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 74
سے زیادہ دین اسلام کی مخالفت کرنے والا ہے۔ پھر اس کے باوجود جب ان کے ہاں کسی آدمی کا نام علی ‘ یا جعفر؛ یا حسن یا حسین یا اس طرح کا دیگر کوئی نام ہو تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں ‘ اور اس کی عزت و تکریم کرتے ہیں ؛ حالانکہ ان کے پاس اس چیز کی کوئی دلیل نہیں ہوتی کہ وہ ان ہی میں سے ہے ۔ ان اسماء کا خاص اہتمام کرنا ان لوگوں میں ہوسکتا ہے۔مگر ایسا کرنا اہل سنت ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ شیعہ لوگ انتہائی جہالت اور گمراہی کا شکار ہیں ۔ اور یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ہر وہ چیز جس کا لوگ ان پر انکار کر رہے ہیں ‘ وہ باطل نہیں ہوتی۔ بلکہ ان کے اقوال میں سے کچھ اقوال ایسے ہیں جن میں اہل سنت ان کی مخالفت کرتے ہیں اور بعض مسائل میں موافقت کرتے ہیں ۔ حق وصواب اس چیز میں ہے جو سنت کے موافق ہو۔ لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو ان کے جہری بسم اللہ پڑھنے کو‘ موزوں پر مسح ترک کرنے کو ‘ خواہ سفر میں ہو یا حضر میں ؛ نماز فجر میں قنوت کو ؛ اور حج تمتع ؛ طلاق بدعی کے لزوم ‘ اور قبریں برابر کرنے کو اور نماز میں ہاتھ کھلا چھوڑنے کو بدعت قرار دیتے ہیں ۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن میں علماء اہل سنت والجماعت کا اختلاف ہے۔ کبھی اس میں حق بات وہ بھی ہوسکتی ہے جو ان کے قول کے موافق ہو؛ اور کبھی وہ بات حق ہوتی ہے جو ان کے مخالف ہو۔ لیکن یہ سارا معاملہ اجتہادی مسائل میں ہوتا ہے۔ ان پر اس وقت تک انکار نہیں کیا جاسکتا جب تک انہیں خاص شعار نہ بنا لیا جائے جس وقت یہ کسی خاص فرقہ کی نشانی بن جاتا ہے ‘ اس لیے اس کا انکار کرنا لازمی ہوجاتا ہے ۔ اگرچہ بذات خود مسئلہ اس نوعیت کا ہو کہ اس میں اجتہاد جائز ہو۔ اس کی ایک مثال قبر پر ٹہنی گاڑنے کی ہے۔ ایسا کرنا بعض صحابہ کرام سے منقول ہے ۔ اور اس طرح کے دیگر مسائل بھی ہیں ۔ ان کی حماقات میں سے یہ بھی ہے کہ یہ لوگ [اپنے مزعوم ] مہدی منتظر کے لیے کئی ایک مقامات سجائے بیٹھے ہیں ‘جہاں پر وہ امام کا انتظار کررہے ہیں ۔ ایک تو سامراء [1]کا سرداب ہے ‘ جس کے متعلق ان کا کہنا ہے کہ امام یہاں پر غائب ہوگیا ہے ۔ اور کئی ایک دوسرے مقامات بھی ہیں جہاں پر گھوڑا یا خچریا کوئی دوسری سواری لیے کھڑے رہتے ہیں تاکہ جب امام کا خروج ہو تو اس پر سواری کرے۔ان مقامات پر ان کے کھڑے ہونے کا وقت صبح اور شام کا ہوتا ہے ۔
[1] معجم البلدان میں ہے؛ سامراء؛ اصل میں سرَّ من راہ ہے۔یہ ایک شہر ہے جو کہ بغداد اور تکریت کے درمیان میں دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے پر آباد ہے۔ اب یہ شہر ویران ہوچکا ہے۔ سامراء میں حضرت علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر اور ان کے بیٹے حسن بن علی کی قبریں ہیں ۔ شیعہ کا خیال ہے کہ یہیں پر ان کا امام غائب ہوگیا ہے۔ اب شیعہ امامیہ کا خیال ہے کہ مہدی ادھر ہی کسی غائب میں پوشیدہ ہے؛ وہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ؛ زندہ اور موجود ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : الملل والنحل ۱؍۱۵۰۔ دائرہ المعارف الاسلامیہ ؛ مادہ سامراء۔