کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 735
اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوئی کہ صفات باری تعالیٰ کو عند الاطلاق غیر نہیں کہہ سکتے۔ جب غیر سے مراد یہ ہے کہ وہ بذات خود نہیں ۔ تو بلاشبہ علم دیگر چیز ہے اور عالم کچھ اور ہے۔ اسی طرح کلام و متکلم بھی ایک دوسرے سے جداگانہ حیثیت رکھتے ہیں ۔ یہی حال لفظ افتقار کا ہے۔ اس سے مراد مفعول کی اپنے فاعل کے لیے حاجت ہوتی ہے۔ اور اس احتیاج سے تلازم بھی مراد لیا جاتا ہے؛ یعنی وہ ایک دوسرے کے بغیر پائے نہیں جا سکتے۔ یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک دوسرے میں مؤثر بھی ہوں ، مثلاً باپ ہونا اور بیٹا ہونا کہ ایک کا معقول ہونا دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس لیے کہ جہاں ابوت (باپ ہونا) ہوگی وہاں بنوّت(بیٹا ہونا) بھی ہوگی۔ مرکب میں جو اشتراک پایا جاتا ہے، وہ معلوم ہو چکا ۔ جب یوں کہا جائے کہ اگر وہ عالم ہے تو ذات اور علم سے مل کر بنا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ذات اور علم پہلے الگ الگ تھے اور پھر جمع ہو کر مرکب ہوگئے۔اور یہ بھی مراد نہیں کہ یہ ایک دوسرے سے الگ ہو سکتے ہیں ۔ بخلاف ازیں مقصود یہ ہے کہ عالم ہونے کی صورت میں ایک ذات ہے اور ایک علم جو اس کے ساتھ قائم و وابستہ ہے۔ فلاسفہ کی تردید: فلاسفہ کا عقیدہ ہے کہ:’’ مرکب اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ مجموع و مرکب کے محتاج اجزا ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اجزاء نے اسے جنم دیا یا اجزا اس کے بغیر بھی موجود تھے، یا یہ کہ اجزا اس میں موثر ہیں ۔ بخلاف ازیں مقصود یہ ہے کہ وہ مجموعہ کے وجود کے بغیر پایا نہیں جاتا۔اور کوئی بھی چیز اپنی ذات کے وجود کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ جب یہ کہا جائے: ’’ایک چیز اپنے آپ کی محتاج ہے۔‘‘اور اس کا مطلب یہی لیا جائے جو ہم نے بیان کیا تو یہ ممتنع نہیں بلکہ تقاضائے حق و صواب ہے۔ اس لیے کہ نفس واجب اپنے آپ سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اور جب یہ کہا جائے کہ اﷲ تعالیٰ واجب بنفسہٖ ہے، تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے نفس نے اس کے وجوب کو جنم دیا، بلکہ مقصود و مراد یہ ہے کہ وہ بذات خود موجود ہے اور غیر کا دست نگر نہیں ۔اور اس کا وجود واجب جو کہ کسی بھی حال میں عدمیت کو قبول نہیں کرتا۔ جب کہا جائے: ’’دس دس کے محتاج ہیں ‘‘ تو اس میں غیر کا ہر گز احتیاج نہیں ۔ جب کہا جائے کہ دس ایک کے محتاج ہیں جو ان کا ایک جزو ہے تو اجزاء کی جانب یہ احتیاج و افتقار اس احتیاج سے بڑھ کر نہیں جو اسے مجموعہ کی جانب حاصل ہے۔ایسا ممتنع نہیں بلکہ یہ عین حق ہے؛ اس لیے کہ کسی بھی مجموعہ کا وجود مجموع کے بغیر نہیں پایا جاتا۔اور یہ کہنا کیسے ممتنع ہوسکتا ہے کہ مجموعہ کے وجود کا تصور اس کے اجزاء کے وجود کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔