کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 733
خلاصہ کلام! یہ کہ اس ترکیب اور اس تجسیم سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنا واجب ہے۔ ذات اللہ تعالیٰ کے جامع صفات کمال ہونے؛ مثلاً علم، قدرت اور حیات سے موصوف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مرکب ہے۔ لغت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی۔اور جب کسی مسمی کا یہ نام رکھا جائے تو اس مرکب میں لفظی نزاع نہیں ہوگا بلکہ معنی عقلی میں نزاع ہوگا۔اور یہ معلوم ہے کہ اس کی نفی پر کوئی دلیل نہیں ہے جیسا کہ دوسرے موقع پر یہ تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔ بلکہ عقلی دلائل اس کے اثبات کو واجب کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عقلاء ذات باری تعالیٰ کے لیے متعدد صفات کا اثبات کرنے میں اضطراری طور پر یک زبان ہیں ۔ مثلاً معتزلہ تسلیم کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ حی، عالم اور قادر ہے، اس کا حی ہونا اور ہے اور قادر ہونا چیزے دیگر ہے ۔ فلاسفہ کہتے ہیں کہ:’’ اﷲ تعالیٰ عقل بھی ہے اور عاقل و معقول بھی، وہ لذت بھی ہے، لذیذ و متلذّذ بھی۔وہ عاشق بھی ہے عشق بھی اورمعشوق بھی[1]۔ یہ بات صریح عقل کی روشنی میں معلوم ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے محبت کرنے کا معنی وہ نہیں جو اس کے علم رکھنے کا معنی ہے۔ اور اس کے محبوب ہونے کا معنی وہ نہیں جو محب اور عالم ہونے کا معنی ہے۔ جب کہ فلسفی کہتے ہیں : جو معنی اس کے عالم ہونے کا ہے؛وہی معنی اس کے قادر ؛ مؤثر اور فاعل ہونے کا ہے۔اوروہ ایک ہی ذات ہے۔پس یہ لوگ علم کو ہی قدرت قراردیتے ہیں ؛ اورقدرت کو ہی قادر اور علم کو عالم ؛ اور فعل کو فاعل قرار دیتے ہیں ۔ بعض متأخرین جیسے محقق طوسی شرح اشارات میں رقم طراز ہے: ’’ علم عین معلوم ہے؛اور معلوم فساد ہے۔یہ اقوال صریح عقل اور مجرد تصور کی روشنی میں اپنے علم کے فساد کومستلزم ہیں ۔‘‘[2] طوسی کا یہ قول صریح عقل کے منافی ہے۔ فلاسفہ صرف ترکیب کے مفہوم سے فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ ترکیب کی نفی کے لیے ان کے یہاں کوئی دلیل موجود نہیں ۔ان اقوال کی خرابی صریح عقل سے معلوم ہوتی ہے۔ اور مجرد ان کا تصور ِتام ہی اس کی خرابی واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ [منکرین صفات کی اہم دلیل:ترکیب] یہ لوگ تو ترکیب کے معانی سے بھاگے تھے۔ ان تمام معانی میں مسمیٰ ترکیب کی نفی کی کوئی دلیل اور حجت ان کے پاس موجود نہیں ہے۔وہ اس ضمن میں سب سے بڑی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ مرکب اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے۔ اور اس کے اجزاء اس کے غیر ہوتے ہیں ۔ اور جو غیر کا محتاج ہو وہ واجب بنفسہ نہیں ہوسکتا ۔ اور بسا اوقات کہتے ہیں کہ: صفت محل کی محتاج ہونی ہے؛ اور جو محل کا محتاج ہو وہ واجب بنفسہ نہیں ہوسکتا۔بلکہ وہ
[1] انظر مثلاً ’’النجاۃ‘‘ لِابنِ سِینا3؍243 ؛حیث یعقِد فصلا عنوانہ: ’’ فصل فِی أن واجِب الوجودِ بِذاتِہِ عقل وعاقِل ومعقول۔ وفصل 3؍245 فِی نہ بِذاتِہِ معشوق وعاشِق ولذِیذ وملتذ وأن اللذۃ ہِی إِدراک الخیرِ الملائِمِ۔ [2] شرح الاشارات از نصیر الدین طوسی ؛اصل کتاب ابن سینا کی ہے؛ ص ۷۱۵۔