کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 731
’’ تو ہم نے ان پر آندھی بھیج دی اور ایسے لشکر جنھیں تم نے نہیں دیکھا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لاَ نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوَاہُمْ بَلٰی وَرُسُلُنَا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُوْنَ﴾
’’یا وہ گمان کرتے ہیں کہ بے شک ہم ان کا راز اور ان کی سرگوشی نہیں سنتے، کیوں نہیں اور ہمارے بھیجے ہوئے ان کے پاس لکھتے رہتے ہیں ۔‘‘[الزخرف۸۰]
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿حَتّٰٓی اِذَا جَآئَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْہُ رُسُلُنَا وَ ھُمْ لَا یُفَرِّطُوْنَ ﴾۔[الانعام ۷۱]
’’یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے اسے ہمارے بھیجے ہوئے قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ لَوْ تَرٰٓی اِذْ یَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوْھَھُمْ وَ اَدْبَارَھُمْ ﴾ [الانفال۵۰]
’’اور کاش! تو دیکھے جب فرشتے ان لوگوں کی جان قبض کرتے ہیں جنھوں نے کفر کیا، ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُم﴾ ۔ [الانعام ۹۳]
’’ اور کاش! تو دیکھے جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں ، نکالو اپنی جانیں ۔‘‘
اس طرح کی مثالیں قرآن کریم میں بہت زیادہ ہیں ۔ان میں سے بعض سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کے جو اوصاف بیان کئے ہیں ؛ وہ اس علم ضروری کو واجب کرتے ہیں کہ ملائکہ ویسے نہیں ہیں جس طرح یہ لوگ گمان کرتے ہیں کہ یہ صرف عقول نفوس میں ہوتے ہیں ۔ خواہ یہ کہتے ہوں کہ عقول دس قسم پر ہے اور نفوس نو قسم پر ہے۔ یہ تقسیم ان کے ہاں مشہور و معروف ہے[1]۔ یا اس کے علاوہ کوئی عقیدہ رکھتے ہوں ۔
ایسے ہی ملائکہ وہ قوت عالمہ بھی نہیں ہے جو نفوس میں کام کرتی ہے؛ جیسا کہ یہ لوگ عقیدہ رکھتے ہیں ۔ بلکہ حضرت جبریل علیہ السلام وہ فرشتہ ہیں جو رسولوں سے جدا ہیں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام سنتے اور پھر اسے لے کر
[1] مسلمان فلاسفہ نے اپنی اکثر کتابوں اور رسائل میں کہا ہے کہ: بیشک آسمانی عقول کو ملائکہ کہا جاتا ہے۔ دیکھیں : سیاست مدینہ از فاریابی ص ۹۔ اقسام العلوم العقلیۃ از ابن سینا ۱۳۔