کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 725
یہاں سے ان جہال کی گمراہی کہ ابتداء ہوتی ہے کہ وہ مسمیٰ تشبیہ جس کی اللہ تعالیٰ سے نفی کرنا واجب تھی؛اسے انہوں نے تعطیل محض کا ذریعہ بنالیا۔تعطیل کا عقیدہ تجسیم کے عقیدہ سے بھی زیادہ برا ہے۔ مشبہہ صنم پرستی کرتے ہیں ۔ اور معطلہ عدم پرستی کرتے ہیں جب کہ ممثلہ اور معطلہ دونوں اندھے بہرے اور گونگے ہیں۔[1]
یہی وجہ ہے کہ ان گمراہوں کا امام جہم بن صفوان اور اس کے امثال و ہمنواکہتے ہیں : اﷲ تعالیٰ کوئی چیز نہیں ۔
اور اس سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ان اسماء سے موسوم نہیں کیا کرتا تھاجن سے مخلوقات کو موصوف کیا جاتا ہے۔ البتہ وہ ذات باری تعالیٰ کو قادر و خالق کہا کرتا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہم جبر کا عقیدہ رکھتا تھا۔ اس کے نزدیک بندے میں کوئی قدرت نہیں پائی جاتی۔[2]
بسا اوقات وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: ’’ اﷲ تعالیٰ باقی اشیاء کی طرح شے نہیں ہے۔‘‘اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مانند کوئی بھی چیز نہیں ۔لیکن اس سے ان کا یہ مقصود ثابت کرنا ہے کہ تشبیہ کی حقیقت اس سے منتفی ہے تاکہ وہ کوئی ایسی چیز ثابت نہ کریں جو کہ متفق علیہ ہو۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ : اللہ تعالیٰ سے تشبیہ اور تمثیل کی نفی کی جائے۔ اﷲ تعالیٰ نے کتاب عزیز کے متعدد مقامات پر تمثیل کی نفی کی ہے، اس ضمن میں مندرجہ ذیل آیات قابل ملاحظہ ہیں :
﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ﴾ (الشوریٰ:۱۱)
’’اس کی مانند کوئی چیز نہیں ۔‘‘
نیز فرمان الٰہی ہے: ﴿ ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا﴾ (مریم:۶۵)
’’کیا اﷲ کا کوئی ہم نام تجھے معلوم ہے۔‘‘
نیز فرمان الٰہی ہے: ﴿ لَمْ یَکَنْ لَہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾ (اخلاص:۴)
’’اس کا کوئی ثانی[ہمسر ] نہیں ۔‘‘
نیز فرمان الٰہی ہے: ﴿ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا﴾ (البقرہ: ۲۲)
’’اﷲ کے لیے شریک نہ ٹھہراؤ۔‘‘
[1] علامہ اشعری نے اپنی کتاب المقالات ۱؍۳۱ پر اس سے حکایت نقل کی ہے؛ کہتا ہے: میں اللہ تعالیٰ کو شے نہیں کہتا؛ اس لیے کہ اس سے اشیاء سے مشابہت لازم آتی ہے۔ اور ایک دوسرے موقع پر کہا ہے: میں باری تعالیٰ کو شے نہیں کہتا؛ اس لیے کہ اس کے نزدیک شے مخلوق ہے جس کی مثل دوسری اشیاء بھی ہوتی ہیں ۔
[2] ان جبریہ کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ باقی مخلوق میں کوئی قدرت نہیں پائی جاتی۔ (دیکھیں الملل والنحل شہرستانی؛ ۱؍۷۹ ) ۔ اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ : اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی صفات سے موصوف کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سے تشبیہ لازم آتی ہے۔ پس اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے عالم اور حیی ہونے کی نفی کرتا اور قادر اور خالق اور فاعل ہونے کی صفات کو تسلیم کرتا تھا۔اور کہتا تھا کہ مخلوق میں سے کوئی بھی خالق؛ قادر اور فاعل نہیں ۔ (الفرق بین الفرق ص ۱۲۸؛ التبصیر فی الدین ۶۴؛ الملل والنحل ۱؍۸۰)۔