کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 724
اور قدیم اور موجود کے متعلق یہ کہہ دے : وہ نہ ہی موجود نہ ہی معدوم ہے۔ بیشک اس صورت میں وہ جزم کے ساتھ اپنے عدم جزم کو ثابت کررہے ہیں ۔
۲۔ حقائق میں توقف کرنااور کوئی فیصلہ صادر نہ کرنا۔وہ جو ہر بات پر کہتے ہیں : میں نہیں جانتا۔ جو کہتے ہیں : ہمیں پتہ نہیں اس کی کوئی حقیقت ہے بھی یا نہیں ؟ ان میں سب سے گئے گزرے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں : ہم نہیں جانتے اور ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ موجود ہے یا معدوم یاوہ زندہ ہے یا مردہ؟
۳۔ تیسری قسم : وہ لوگ ہیں جو حقائق کو اپنے پہلے سے طے شدہ عقائد کے تابع کرتے ہیں ۔
پس پہلا گروہ منکرین کا ہے۔ دوسرا گروہ اہل توقف کا ہے ۔ اور تیسرا گروہ حقائق کو ظنون و اوہام کے تابع کر نے والوں کا ہے۔بعض علماء کے نزدیک سفسطہ کی ایک چوتھی قسم بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ :
۴۔ یہ کائنات ارضی جاری و ساری ہے اور اسے کہیں قراراور ثبات نہیں ۔یہ لوگ پہلی قسم میں شمار ہوتے ہیں ؛ لیکن اس کا یہ قول اس کو واجب کرتا ہے۔ [1]
یہاں پر مقصود ہے کہ انسان کا نقیضین سے رک جانا؛ ان دونوں کے ختم ہونے تقاضا نہیں کرتا۔ اور اس عقیدہ کا حاصل کلام یہ ہے کہ دلوں اور زبانوں اور جوارح کو اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے ذکر اور عبادت سے روکا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ : یہ وقف اور امساک کے طرز پرکفر اور تعطیل ہے نہ کہ نفی اور انکار کے طور پر ۔
باطنیہ کی بے راہ روی کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ لفظ تشبیہ میں اجمال و ابہام پایا جاتا ہے۔ دنیا کی ہر دو اشیاء کے مابین ایک قدر مشترک موجود ہے، جس کی بنا پر ذہن میں وہ دونوں چیزیں ہم آہنگ نظر آتی ہیں ؛خارج میں ایسے نہیں ہوتا ۔ تاہم یہ ضروی نہیں کہ وہ دونوں اس قدرمشترک میں برابر ہوں ۔ بخلاف ازیں اکثر اوقات اشیاء کے درمیان قدر مشترک میں تفاضل پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب دو چیزوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ:’’ فلاں فلاں زندہ ہیں اور فلاں فلاں صاحب علم ہیں ۔اور فلاں اور فلاں صاحب قدرت ہیں ۔‘‘ تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ علم و حیات اورقدرت میں ایک دوسرے کی مثل ہوں ۔ اور نہ یہ کہ ایک شخص کی حیات و علم اور قدرت بعینہٖ دوسرے کی حیات وعلم اور قدرت ہے۔ مزید برآں اس سے یہ نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوتا کہ وہ دونوں کسی موجود فی الخارج میں باہم سہیم و شریک ہیں ۔
[1] ابن حزم اپنی کتاب :الفِصل (1؍9 ) میں سوفسطائیہ پر گفتگو کرتے ہوئے کہتے ہیں : متکلمین کے اسلاف کے تین گروہ ذکر کئے گئے ہیں : ایک گروہ وہ ہے جو جملہ طور پر حقائق کی نفی کرتا ہے۔دوسرا گروہ اس میں شکوک و شبہات کا شکار رہتا ہے۔ تیسرا گروہ: کہتے ہیں : جن کے پاس حق ہے ان کے لیے یہ حق ہیں اور جن کے پاس باطل ہے ان کے لیے یہ باطل ہیں ۔ علامہ جرجانی نے انہیں تین گروہوں میں تقسیم کیاہے : لا أدریہ : جو توقف کرتے ہیں ۔ عنادیہ : جو معاند ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ اصل میں کوئی چیز موجود ہی نہیں ۔ اور عندیہ : جو حقائق کو اپنے اعتقادات کے تابع بناتے ہیں ۔شرح المواقف للایجی 1؍117۔