کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 722
جیسا کہ وضاحت ہوچکی۔
[لفظ مشبہہ سے متعلق گفتگو]
جہاں تک مشبہہ [1]کے لفظ کا تعلق ہے اس میں شبہ نہیں کہ تمام اہل سنت والجماعت اہل حدیث ؛ امام مالک ؛ امام شافعی ؛ امام ابو حنیفہ اور امام احمد بن حنبل [ رحمہم اللہ ]اور دیگر حضرات ذات باری کو مخلوقات کی مماثلث سے منزہ قرار دینے میں یک زبان ہیں ۔اور مشبہہ کی مذمت پر بھی یک زبان ہیں جو صفات باری کو صفات مخلوق کے مماثل قرار دیتے ہیں ۔اور وہ بالاتفاق یہ کہتے ہیں : بیشک اللہ تعالیٰ کی ذات و سفات اور افعال میں کوئی بھی اس کے مثل نہیں ہوسکتا۔
صفات باری تعالیٰ اور سلف کا طریقہء کار:
اہل سنت باری تعالیٰ کو انہی صفات سے متصف قرار دیتے ہیں جو خود اﷲ تعالیٰ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ہیں وہ صفات الٰہی کو بلا تحریف و تعطیل اور بغیر کیفیت و مثال کے تسلیم کرتے ہیں ۔
وہ صفات الٰہی کا اثبات کرتے ہیں مگر ان کی مثل کسی کو قرار نہیں دیتے۔ اسی طرح وہ ذات اللہ تعالیٰ کو عیوب و نقائص سے منزہ مانتے ہیں مگر صفات سے معطل قرار نہیں دیتے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ ﴾ (الشوریٰ:۱۱)
’’اس کی مثل کوئی چیز نہیں ۔‘‘
اس میں ان لوگوں پر رد ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے مثالیں بیان کرتے ہیں ۔اور اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ ہُوَالسَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ:۱۱)’’وہ سننے والا دیکھنے والا ہے ۔‘‘
اس میں معطلہ پر رد ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے منکر ہیں ۔
اہل سنت والجماعت کا صفات الٰہی کے بارے میں عقیدہ دو اصولوں پر مبنی ہے:
اول: اہل سنت اللہ تعالیٰ کو صفات نقص مثلاً :نیند، اونگھ، نسیان اور عجز و جہل سے منزہ مانتے ہیں ۔
دوم: یہ کہ بیشک اللہ تعالیٰ ان صفات کمال سے متصف ہے جن میں کسی بھی لحاظ سے کوئی نقص نہیں ۔ اور یہ صفات اس کے ساتھ ایسے خاص ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں ۔ مخلوقات میں سے کوئی بھی چیز صفات میں اس کے مماثل نہیں ہوسکتی۔
[1] یقول التہانوِی فِی کشّافِ اصطِلاحاتِ الفنون: المشبِہۃ علی صِیغۃِ اسمِ الفاعِلِ مِن التشبِیہِ، و ہو یطلق علی فِرقۃ مِن ِکبارِ الفِرقِ الإِسلامِیۃِ شبہوا اللّٰہ تعالیٰ بِالمخلوقاتِ ومثلوہ بِالحادِثاتِ، ولِأجلِ ذلِک جعلناہم فِرقۃ واحِدۃ قائِلۃ بِالتشبِیہِ وِإنِ اختلفوا فِی طرِیقِہِ. وانظر عنِ المشبِہِ أیضا ما ورد فِی الملل والنحل 1؍95 ؛دائِرۃ المعارِفِ الِسلامِیِ، مادۃ:التشبِیہِ ؛ وانظر أیضا ما سبق 2؍102.۔