کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 721
جو قول بنا کر اس نے پیش کیاہے، اس سے اس کا جھوٹ ثابت اور واضح ہوچکا ہے۔ اور یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ یہ قول اور اس سے گھٹیا ترین اقوال شیعوں کے متقدمین کے ہی ہیں ۔
تیسری وجہ:یہ کہا جائے کہ گروہ اپنے قائدین کے ناموں یا اپنے احوال کے بیان سے دیگر گروہوں سے ممتاز ہوتے ہیں ۔ پہلے کی مثال میں کہا جائے گا: نجدات، ازارقہ، جہمیہ، نجاریہ اور ضِراریہ وغیرہ۔ دوسرے کی مثال میں کہا جاتا ہے: رافضہ، شیعہ، قدریہ، مرجئہ اور خوارج وغیرہ۔[1]
لفظ حشویہ کی وضاحت:
٭ لفظ حشویہ نہ تو کسی خاص شخص کا نام ہے اور نہ کسی مخصوص قول کی طرف نسبت۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ کون لوگ تھے؟ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ لفظ عمرو بن عبید نے بولا تھا۔ اس نے کہا تھا: عبد اللہ تعالیٰ بن عمر حشوی تھے۔ جس نے بھی یہ لفظ بولا تھا، اس کی اصطلاح میں اس سے عوام مراد تھے جیسے رافضی اہل سنت کے مذہب کو جمہور کا مذہب کہتے ہیں ۔
٭ تو اگر اس کی حشویہ کہنے سے مراد صرف ائمہ اربعہ [احمد، شافعی، مالک، ابو حنیفہ رحمہم اللہ ] کے مقلدین کا ایک گروہ ہے ۔ تو سبھی یہ جانتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں ان کے ہاں نہیں پائی جاتیں ۔ بلکہ وہ تو اس طرح کی باتیں کرنے والوں کی تکفیر کرتے ہیں ۔ اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ کچھ باتیں ان میں سے کچھ لوگوں میں پائی جاتی تھیں تو یہ اس پورے گروہ کی متعین رائے نہیں ہوگی۔ بلکہ اس طرح کی مثالیں تو سارے گروہوں میں مل جاتی ہیں ۔ اگر حشویہ سے اس کی مراد مطلقاً اہل حدیث ہیں چاہے وہ کسی کے بھی پیروکار ہوں تو اہل حدیث کا عقیدہ صرف اور صرف سنت ہے۔ کیونکہ یہی عقیدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ کسی اہل حدیث کے عقیدہ میں یہ باتیں ثابت نہیں ۔ کتابیں اس بات کی گواہ ہیں ۔
٭ اور اگر حشویہ سے اس کی مراد عمومی طور پر اہل سنت ہیں تو مسلمانوں اور اہل سنت میں عمومی طور پر اس طرح کی باتیں موجود نہیں ۔ جمہور مسلمانوں کا یہی خیال ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں کہہ سکتا۔ اگر عوام میں سے کوئی ایک دو یا زیادہ جاہل اشخاص ایسی بات کرتے ہیں تواسے مطلقاً اہل سنت والجماعت کا عقیدہ قرار دے کر ان پر طعن وتشنیع درست نہیں ۔ طعن وتشنیع انہی باتوں پر درست ہوگی جو قائدین اور علماء حضرات کہیں جیسا کہ پیچھے ہم شیعہ ائمہ کے حوالہ سے بات کر آئے ہیں ۔ یقیناً شیعہ کے ائمہ ہی ان گھٹیا باتوں کے قائل ہیں
[1] [[شیعہ مصنف کو چاہیے تھا کہ وہ اس قول کے قائل کا نام ذکر کرتا، ورنہ دروغ گوئی ہر کسی کے لیے ممکن ہے۔ تم نے حشویہ کا ذکر کیا ہے مگر کسی متعین شخص کا نام نہیں لیا، نہ جانے وہ کون ہیں ؟ اور اگر حشویہ سے تم اہل حدیث مراد لیتے ہو تو وہ خالص سنت کے پیرو ہیں ، اور ان میں ایک شخص بھی تمہاری ذکر کردہ بات کا معتقد نہیں ]]۔
خلاصہ کلام! ’’اس بات میں بھی تمہاری کذب بیانی الم نشرح ہوئی اور دوسرے اقوال میں بھی۔‘‘