کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 72
کہ دنیا میں دس بڑے کافر لوگ ہیں ۔ تب بھی ان کے کفر کی وجہ سے اس لفظ [دس] کا ترک کرنا واجب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں ؛ ﴿وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ تِسْعَۃُ رَہْطٍ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ ﴾ [النمل ۴۸] ’’اس شہر میں نو جھتے دار تھے جو ملک میں فساد پھیلاتے اور کوئی اصلاح کا کام نہ کرتے تھے۔‘‘ [ان کی وجہ سے ] مطلق طور پر نو کے عدد کو ترک کرنا واجب نہیں ہوتا۔ بلکہ بہت سارے مواقع پر اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’ دس ‘‘ کے مسمیٰ کی تعریف کی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ حج تمتع کے بارے میں فرماتے ہیں : ﴿فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الحج وَ سَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ﴾ [البقرۃ۱۹۶] ’’تو جس شخص کو قربانی میسر نہ آئے تو تین روزے تو ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر، یہ کل دس روزے ہو جائیں گے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰہَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ﴾ [الأعراف ۱۴۲] ’’ہم نے موسی علیہ السلام کو تیس شب کے لیے(کوہِ سینا پر)طلب کیا اور بعد میں دس راتوں کا اور اضافہ کر دیا ، اِس طرح اس کے رب کی مقرر کردہ مدت چالیس راتیں پوری ہوگئیں ۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿وَالفجر *وَلَیَالٍ عَشْرٍ﴾ [الفجر۱۔۲] اور قسم ہے فجر کے وقت کی ‘ اور دس راتوں کی ۔‘‘ اور صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی آخری دس راتیں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی ۔‘‘ [ البخاری (۳؍۴۷)مسلم (۲؍۸۳۰)] لیلۃ القدرکے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اسے رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو۔‘‘[1] اور صحیح حدیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے [ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں کے متعلق ]ارشاد فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی بھی عمل ان دنوں کے عمل سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں ۔‘‘[2] اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ لفظ ’’ نو ‘‘سے تو دوستی رکھتے ہیں ؛ اور دس [عشرہ مبشرہ ] میں سے ’’نو ‘‘سے بغض رکھتے ہیں ۔ یعنی یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا باقی لوگوں سے بغض رکھتے ہیں ۔ ایسے ہی شیعہ ابوبکر و عمر اور عثمان نام رکھنا گوارہ نہیں کرتے؛اور ان لوگوں سے قطع تعلقی کرلیتے ہیں جن کے
[1] البخاري کتاب الصوم ‘ باب(۷۲)؛ مسلم (۲؍۸۲۳)۔ [2] البخاري ۲؍۲۰۔ الترمذي ۲؍۱۲۹۔