کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 719
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ (حضرت علی) حیدر گنجے اور بڑے پیٹ والے کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ نیز یہ کہ صادق و امین محمد کے سوا حضرت علی پر اور کوئی حجاب حائل نہیں ہے۔ حضرت علی کی طرف جانے کا راستہ صرف حضرت سلمان (فارسی) ہیں جو بڑے طاقت ور اور مضبوط تھے۔‘‘
بعض شیعہ کے نزدیک رمضان کا مقدس مہینہ تیس آدمیوں کے ناموں سے عبارت ہے؛اور یہ تیس نام تیس عورتیں ہیں ۔ اور یہ کہ پانچ نمازیں اصل میں پانچ نام ہیں : وہ نام یہ ہیں :علی ؛ حسن؛ حسین؛ محسن اور فاطمہ۔اس کے علاوہ بھی ان کے کئی کفریہ عقائد ہیں جن کا بیان یہاں پر طوالت اختیار کر جائے گا۔[1]
اور یہ معلوم امر ہے کیونکہ اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ یہ غالیوں کے عقائد ہیں ؛ جو رب تعالیٰ کو عیوب اور نقائص سے متصف کرنے والی غلو آمیز باتیں جو نقص والی صفات میں خالق کی مخلوق سے تشبیہ اور الوہی صفات میں مخلوق کی خالق سے تشبیہ کو متضمن ہیں ، زیادہ تر شیعوں میں پائی جاتی ہیں ۔ امت کے فرقوں میں سے جس قدر حلول، تمثیل اور تعطیل ان میں پائی جاتی ہے، کسی اور گروہ میں نہیں پائی جاتی۔
اسی وجہ سے ان کی طرف منسوب بعض لوگوں کو ملاحدہ اور غالیہ کا نام دیا گیا ہے۔ اسماعیلیوں کا مخصوص نام ملاحدہ ہے اور غالیہ ان لوگوں کا مخصوص نام ہے جو انسانوں میں الوہی صفات کے قائل ہیں ، مثلا: نصیرِیہ[2]۔ انسانوں کے الہ ہونے والا غلو آمیز دعوی عیسائیوں کا ہے ؛ یا پھر شیعوں میں سے غالیوں کا۔ بعض صوفیوں وغیرہ میں بھی اس طرح کا الحاد اور غلو موجود ہے لیکن شیعوں میں زیادہ ہے اور قبیح ترین ہے۔جب حقیقت یہی ہے تو اہل سنت والجماعت کو تجسیم اور حلول کا الزام دینے والا اور شیعوں کی تعریف کرنے والا یا تو شیعوں کی باتوں سے بالکل ناواقف ہے یا پھر عدل وانصاف سے کوسوں دور اور لوگوں پر ظلم وستم ڈھانے والا ہے۔
پھر اہل سنت متاخرین شیعوں سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ عقلی اور شرعی دلائل سے اپنے متقدمین کا دفاع کریں تو وہ اس سے عاجز آجاتے ہیں جیسا کہ پہلے بھی اس پر تنبیہ گزر چکی ہے۔ شیعوں میں سے مجسمہ فرقہ کے
[1] صوفیہ کا نظریہ حلول ایک خطرناک مرض ہے اعداء اسلام نے اس کے جراثیم کو دین اسلام کے جسم میں پھیلا دیا تھا۔ اگر اسلام کے اصول و مبادی دیگر مذاہب وادیان کے مقابلہ میں اقوی و اکمل نہ ہوتے تو وہ ان عظیم مصائب کے سامنے ٹھہر نہ سکتا۔ اور تشیع و فلسفیانہ تصوف کا سیلاب اسے خس و خاشاک کی طرح بہالے جاتا۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ جو شخص علی الصبح تصوف کا مسلک اختیار کرے اور چاشت کے وقت تک صوفی رہے اس کے احمق ہونے میں شبہ نہیں ۔‘‘(دیکھئے حلیۃ الاولیاء ابو نعیم نیز مقدمۃ صفۃ الصفوۃ لا بن الجوزی)۔ صوفیہ فلسفۂ غیب کے مسئلہ میں اس قدر منہمک ہوئے کہ اس ضمن میں وارد شدہ نصوص صریحہ و صحیحہ کو بھی نظر انداز کر دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے اوہام و ظنون میں ڈوب کر اس دھوئیں کی طرح ضائع ہوگئے جو فضا میں منتشر ہو جاتا ہے، ان کی حالت اس تنکا جیسی ہے جس سے آدمی لٹک جاتا ہے، مگر اس کا انجام کچھ نہیں ہوتا۔
[2] یہ شیعہ کا فرضی امام ہے جو ان کے زعم کے مطابق امام حسن عسکری کا بیٹا ہے، بقول شیعہ وہ تاہنوز بقید حیات ہے اس کی موت سے قبل حضرت ابوبکر و عمر اور صحابہ رضی اللہ عنہم دوبارہ زندہ کیے جائیں گے وہ ان سے انتقام لے گا، ان کے انصار و اعوان کو سخت سزائیں دے کر صفحہ ہستی سے مٹا ڈالے گا، پھر شیعہ کی دولت عظمی قائم کرے گا اور مر جائے گا۔