کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 715
ابو الخطاب بن ابو زینب [1] کے اتباع خطابیہ سے متعلق مذکور ہے کہ ان کی رائے میں ائمہ، انبیاء و رسل کا درجہ رکھتے ہیں ،اوروہ مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہوا کرتے ہیں ۔ ان میں دو رسول ہر وقت موجود رہتے ہیں ،ان میں سے ایک ناطق ہوتا ہے اور دوسرا ساکت۔ رسول ناطق
[1] مفہوم شمعون تھا پھر نام محمد اور مقصود علی تھے، ایک شیعہ شاعر کہتا ہے: ہابیل، شیث، یوسف و یوشع آصف شمعون الصفا حیدر نصیریہ قدامت عالم اور تناسخ کا عقیدہ رکھتے ہیں ، یہ لوگ جی اٹھنے کے منکر ہیں ۔ اور جنت و جہنم کو ایک دنیوی رمز قرار دیتے ہیں ۔ نصیریہ کے نزدیک پانچ نمازوں سے پنجتن یعنی حضرت علی، حسن و حسین محسن اور فاطمہ رضی اللہ عنہم مراد ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ پنجتن کا نام ذکر کرنے کے بعد غسل جنابت وضو اور نماز کے باقی شروط و واجبات کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ان کے نزدیک روزہ سے تیس مرد اور تیس عورتوں کے اسماء مراد ہیں ۔ان کے نزدیک شراب حلال ہے، بقول ان کے (نعوذ باﷲ من ذلک )حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ (خاکم بدہن) سب سے بڑے ابلیس تھے،:پھرحضرت ابو بکر، پھر حضرت عثمان، نصیریہ کی اصطلاح ہے، پانچ یتیم اور بارہ نقیب۔ آٹھویں اور نویں صدی ہجری میں مصری حکومت کے یہاں نصیریہ سے متعلق سرکاری معلومات موجود تھیں ۔ جن کو ابو العباس احمد علی قلقشندی المتوفی ۸۲۱ھ نے اپنی کتاب صبح الاعشیٰ (۱۳؍ ۲۴۹۔۲۵۱) پر جمع کیا تھا۔ نصیریہ کے عقاید سے اخذ کر کے قانون بنایا گیا تھاکہ عدالتوں میں جب حلف دینے کی ضرورت لاحق ہو تو انہیں کس طرح حلف دیا جائے۔ نصیریہ کے متعلق سرکاری معلومات کا خلاصہ یہ ہے کہ: ۱۔ سیدنا علی کی سکونت گاہ بادل ہے۔ ۲۔ بادل دیکھ کر نصیریہ کہا کرتے تھے: ’’ السلام علیک یا ابا الحسن ‘‘ ۳۔ بادل کی گرج حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آواز اور بجلی کی چمک آپ کی ہنسی ہے، اسی بنا پر وہ بادل کی تعظیم بجا لاتے تھے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی رسول مانتے تھے۔ ۴۔ نصیریہ حضرت علی کے قاتل ابن ملجم کو بنظر استحسان دیکھتے ہیں ، بقول ان کے ابن ملجم نے لاہوت (سیدنا علی) کو ناسوت( عالم ارضی) سے چھڑایا،ابن ملجم پر لعنت کرنے والوں کو وہ خطا کار قرار دیتے ہیں ۔ ۵۔ ابن فضل اﷲ العمری المتوفی ( ۷۰۰۔ ۷۴۹) اپنی تصنیف’’ التعریف بالمصطلح الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں کہ نصیریہ شراب کی تعظیم بجا لاتے اور اسے نور تصور کرتے ہیں ۔ ۶۔ نصیریہ کی رائے میں انگور کی بیل قابل تعظیم ہے اور اس کا اکھاڑنا گناہ ہے، کیونکہ اس سے شراب تیار کی جاتی ہے۔ میں نے نصیریہ کے افکار و معتقدات اور سیر و سوانح میں خاصی طوالت سے کام لیا ہے کیوں کر اس فرقہ کے افراد ہنوز دیار شام کے علاقہ لا ذقیہ میں پائے جاتے ہیں ۔ تازہ ترین مردم شماری کے مطابق ان کی تعداد ۲۸۹۰۰۰ (دو لاکھ نواسی ہزار) ہے۔ فرانسیسی استعمار کے زمانہ میں اہل فرانس نے اس فرقہ کے لیے مغرب میں رہنے والے بربر کے سے حالات پیدا کر دئیے تھے۔ جن کی تفصیل یہاں خارج از بحث ہے، نصیریہ نے سر زمین شام میں بود و باش رکھتے ہوئے، تاریخ میں پہلی مرتبہ اپنا نام تبدیل کر کے ’’ علویہ ‘‘ رکھ لیا۔ نصیریہ میں سے صالح العلی نے انقلاب فرانس کے زمانہ میں بڑا کام کیا تھا، ان میں سے ایک شخص سلمان المرشد نامی نے تقیہ کے عقیدہ کے عین برعکس اعلانیہ رب ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ زمانہ نے نصیریہ میں ایسے ذہین آدمی پیدا کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مرور زمانہ کے باوصف نصیریہ کے قدیم افسانے تاحال پوری طرح صفحہ ارضی سے محو نہیں ہوئے۔  أبو الخطابِ محمد بن بِی زینب مِقلاص الأسدِی الکوفِی الأجدع سبق الکلام عنہ وعن فِرقتِہِ1؍64 مقالاتِ الأشعرِیِ 1؍77۔وانظر أیضا: أصول الدِینِ331۔التبصِیر فِی الدِینِ74۔الفِصل لِابنِ حزم 5؍48۔الخِطط لِلمقرِیزِیِ 2؍352۔التنبہ لِلملطِیِ54۔فِرق الشِیعۃِ، ص 3؍64۔البدء والتارِیخ 5؍131 ۔ الرِجال لِلکشِیِ260. ۔ بیانہ منصوریہ اور خطابیہ یہ انتہائی غالی قسم کے رافضی تھے۔ جو کہ محارم کو حلال سمجھتے تھے۔اور ان کا عقیدہ تھا کہ نبوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ دروز اور نصیریہ بھی ان شیعہ کی ہی اقسام ہیں ۔ یہ آج کل شام کے علاقے میں اپنے آپ کو علوی کہلاتے ہیں ۔