کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 714
................................................................................................ ................................................................................................ ................................................................................................ [1]
[1] (گئے۔ تو آپ کے عقیدت مند اور ملاقاتی اس حقیقت کا اعتراف کر کے اپنے اپنے کاموں میں لگ گئے اور خانہ نشین ہوگئے۔ امام حسن عسکری کے بھائی سید جعفران کی تدفین و تکفین میں مشغول ہوگئے اور اس اساس پر اس کا ترکہ تقسیم کیاگیا کہ ان کی کوئی اولاد نہیں ۔ آپ کا کنبہ اور سب علوی اس حقیقت سے آشنا تھے کہ امام عسکری بے اولاد ہیں ۔ اس وقت ایک افسر بھی وہاں موجود تھا جس کے پاس ایک رجسٹر تھا۔ اس میں علویہ کی تاریخ ولادت مذکور تھی۔ اس وقت یہ ایک طے شدہ حقیقت تھی کہ امام عسکری لاولد تھے۔تاہم نام نہاد ائمہ اہل بیت کے ارد گرد گھومنے والے غالی شیعہ کو اس سے بڑا دکھ ہوا اور انہوں نے سمجھا کہ جس امر کی بنا پر وہ اہل اسلام کے خلاف جھوٹی روایات گھڑاکرتے تھے اب وہ باقی نہیں رہا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد انہوں نے اس کا ایک حل تلاش کیا، اور وہ تھا امام غائب کا نظریہ....! انہوں نے یہ نظریہ گھڑ لیا کہ امام حسن عسکری کے یہاں ان کی وفات سے پانچ سال پہلے ایک لڑکا تو لدہوا تھا اور وہ بمقام سامرا آپ کے گھر کے تہ خانہ میں پوشیدہ ہے ۔ اس نظریہ کا موجد یا مشیر محمد بن نصیر تھا، محمد بن نصیر چاہتا تھا کہ وہ بارھویں من گھڑت امام اور ان کے اتباع و انصار کے مابین ایک واسطہ قرار پائے۔ اس واسطہ کو شیعہ اپنی اصطلاح میں ’’الباب ‘‘ (دروازہ) کہتے تھے۔ امام حسن عسکری اور ان کے والد کا ایک خادم تھا جو اس کے گھر کے قریب ایک دکان میں گھی اورتیل فروخت کیا کرتا تھا، اس کا نام عثمان بن سعید تھا۔ اس کا ایک بیٹا بھی امام کی خدمت میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا اس کا نام محمدعثمان تھا۔ محمد بن نصیر کے رفقاء نے محسوس کیا کہ اگر محمد بن نصیر جیسے نووارد کو ’’ الباب ‘‘ کے منصب پر فائز کیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ دوسرے رفقاء اس پر رشک کرنے لگیں ، خصوصاً جب کہ پروگرام میں یہ بات بھی شامل تھی کہ فرضی امام کے لیے ان کے اتباع سے صدقہ فراہم کیا جائے۔ بریں بنا یہ بہتر ہوگا کہ گھی فروش اور اس کے لڑکے کو یہ منصب تفویض کیا جائے۔ انہوں نے سوچا کہ یہ امانت محمد بن نصیر جیسے با اثر آدمی کی بجائے گھی فروش اور اس کے لڑکے کے پاس رہے۔ شیعہ اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ گھی فروش امام غائب کے والد اور دادا کی خدمت میں رہ چکا ہے اور اس طرح یہ راز محفوظ رہے گا اور لوگ اسے زائل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ اس کے عین بر خلاف محمد بن نصیر ’’ الباب ‘‘ کا منصب اختیار کرنے پر تلا ہوا تھا، مگر اس کے شرکاء مشورہ ہر قیمت پر اسے اس منصب سے محروم کرنا چاہتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محمد بن نصیر نے ناراض ہو کر امام غائب ہی سے انکار کر دیا، حالانکہ وہ خود اس عقیدہ کا تصنیف کنندہ تھا، چنانچہ اس نے شیعہ کا ایک جدید فرقہ تیار کرنے کی بنا ڈالی جن کے افکار و معتقدات بڑے عجیب و غریب ہیں ، محمد بن نصیر کی جانب منسوب کر کے اس فرقہ کو نصیریہ کہتے ہیں ۔مشہور شیعہ عالم نو بختی اور دیگر متقدمین شیعہ بہت سی رسوا کن باتوں کو محمد بن نصیر کی جانب منسوب کرتے ہیں ۔ محمد بن نصیر بذات خود اپنے رفقاء و معاصرین سے متعلق ایسی باتوں کی تشہیر کیا کرتا تھا۔اس کی تفصیلات ان کتب میں موجود ہیں جو اسلامی فرقہ جات اور ان کے عقائد و افکار کے بارے میں تحریر کی گئی ہیں ۔ شیعہ کا فرقہ نصیریہ مختلف مراحل و ادوارسے گزرا ہے، یہاں تک کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ المتوفی (۶۶۱۔ ۷۲۸) کا زمانہ آیا، شیخ الاسلام کا تلمیذ رشید شیخ شہاب الدین احمد بن محمود بن لہری شافعی نصیریہ کے متعلق لکھتا ہے: نصیریہ کہتے ہیں : حضرت علی رب ہیں ۔ محمد حجاب اور سلمان فارسی’’ الباب ‘‘ (دروازہ)۔ جس الہٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا وہ حضرت علی ہیں ۔ آپ ارض و سماء کے امام ہیں ۔ اﷲ (علی) کے اس زمین پر ظاہر ہونے کا مقصد یہ تھا کہ مخلوقات اس سے مانوس ہوں ۔ وہ بندوں کو اپنی معرفت و عبادت کا طریقہ بتائے، فرقہ نصیریہ کے ہر فرد پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ مختلف انوار و ادوار میں ایسے امام اور رب کو پہچانے اور ہر زمانہ میں اس کے اسم و معنی میں جو تبدیلی ہوتی ہے اسے پہچانتا رہے، سب سے پہلے فرد کا نام آدم اور مفہوم شیث تھا، بعد ازاں اسم یعقوب اور معنی یوسف۔پھر اسم موسیٰ اور معنی یوشع پھر نام سلیمان اور مفہوم آصف پھر نام عیسیٰ مسیح اور (