کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 713
’’ آل محمد آسمان ہیں ، اور شیعہ زمین ہیں ،اور وہی آسمان کا وہ ٹکڑا ہے جو بنی ہاشم میں گرا تھا۔اس کا دعویٰ تھا کہ مجھے آسمان پر لے جایا گیا ۔ میرے معبود نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا ’’اے میرے بیٹے! جاکر میرے دین کی تبلیغ کیجئے۔‘‘اور پھر وہ یہ پیغام رسالت لیکر زمین پر اترا۔ منصور یہ ان الفاظ کے ساتھ حلف اٹھایا کرتے تھے: ’’لَا وَالْکَلِمَۃَ۔‘‘ابو منصور کا عقیدہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سب سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا، پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو۔ اس کاعقیدہ ہے کہ سلسلہ ء نبوت و رسالت ختم نہیں ہوا۔ یہ جنت اور جہنم کا منکر تھا؛ اس کی رائے میں جنت ایک آدمی کا نام ہے، اور جہنم بھی۔
وہ عورتوں اور محرم رشتہ دار خواتین کواپنے ماننے والوں کے لیے حلال قرار دیتا تھا۔اور اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ محرمات ،خون، مردار اور شراب کو حلال قرار دیتا تھا ۔اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر ان میں سے کسی بھی چیز کو حرام نہیں ٹھہرایا۔اور نہ ہی کوئی ایسی چیز حرام کی ہے جس سے ہماری جان میں طاقت آتی ہو۔ا ور کہا کرتا تھا کہ یہ قوموں کے نام ہیں ، اﷲ تعالیٰ نے ان کی دوستی کو حرام ٹھہرایا ہے،اور وہ اس آیت کی تأویل کیا کرتا تھا:
﴿لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا﴾[المائدۃ ۹۳]
’’ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے اس چیز میں کوئی گناہ نہیں جو وہ کھا چکے۔‘‘
اس نے اپنے ماننے والوں سے فرائض کو بھی ساقط کردیا تھا اور کہتا تھا کہ یہ آدمیوں کے نام ہیں ، جن سے دوستی لگانا اللہ تعالیٰ نے واجب قرار دیاہے۔دورِبنو امیہ میں والی عراق یوسف بن عمر [1]نے اسے قتل کر دیا تھا۔
آج کل کے دور میں موجود فرقہ نصیریہ [2] والے کئی وجوہات کی بنا پر منصور یہ سے ملتے جلتے تھے۔
[1] بیان کے مطابق ’’القائم ‘‘ کا لفظ اختراع کرنے والا ابو منصور تھا۔ گویا شیعہ حضرت علی کو وصی قرار دینے میں ابن سبا کے شاگرد ہیں اور تہ خانے میں چھپ رہنے والے مشکوک الولادت کو القائم کا لقب عطا کرنے میں ابو منصور کے تلمیذ رشید ہیں ۔ ابو منصور کہا کرتا تھا کہ مجھے آسمان پر لے جایا گیا: اﷲ تعالیٰ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور سریانی زبان میں میرے ساتھ بات چیت کی پھر مجھے زمین پر اتارا گیا، آیت ذیل میں : ﴿ وَاِنْ یَّرَوْا کِسَفًا مِّنَ السَّمَائِ ﴾ (الطور: ۴۴)’’ اگر آسمان سے ایک ٹکڑا(ڈوہ کاڈوہ) گرتا ہوادیکھیں ۔‘‘جو کسف کا لفظ وارد ہے اس سے میری ذات مراد ہے۔بعد ازاں کہا کرتا تھاکہ: کسف سے ذات الٰہی (یعنی خود ابو منصور) مراد ہے۔ وہ اپنے اتباع کو کہا کرتا تھا کہ مخالفین کا گلا گھونٹ کر انہیں قتل کر دیا کرو۔ جب یوسف بن عمر ثقفی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی جانب سے کوفہ کا گورنر مقرر ہوا تو اس نے ابو منصور کو پکڑ کر سولی پر چڑھا دیا۔یہ واقعہ ۱۲۰ھ اور ۱۲۶ھ کے درمیان وقوع پذیر ہوا، ان دنوں یوسف بن عمر عراق پر حکمران تھا۔
یوسف بن عمر الثقفِی، أبو یعقوب،ہشام بن عبد الملک کے دور سے یزید بن ولید کے دور تک بنی امیہ کی طرف عراق کا حاکم رہا ہے۔یزید بن ولید نے اسے معزول کرکے جیل میں ڈال دیا تھا۔انظر: وفیاتِ العیانِ 6؍98 ۔الإعلام 9؍320.۔: المقالاتِ لِلأشعرِیِ1 ؍ 75۔المِلل والنِحل1؍158۔أصول الدِین331۔ الفرق بین الفِرقِ، ص 149۔التبصِیر فِی الدِینِ3 ۔الفِصل لِابنِ حزم 5؍45۔ الخِطط لِلمقرِیزِیِ 2؍253۔فِرق الشِیعۃِ، ص 60۔ البدء والتارِیخ 5؍131 ۔
[2] نصیریہ محمد بن نصیر کے پیرو ہیں ، محمد بن نصیر بنی نمیر کے موالین میں سے تھا اور گیارہویں امام حسن عسکری المتوفی (۲۳۲ ۔
۲۶۰) کی سکونت گاہ سامرا میں ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ جب ربیع الاول : ۲۶۰ھ میں امام عسکری لا ولد فوت ہو(