کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 712
کے لیے بذریعہ نصوص متعین کیا تھا۔[1]
مغیرہ بن سعید کے اصحاب مغیریہ سے منقول ہے کہ :ان لوگوں کا عقیدہ تھا کہ مغیرہ کہا کرتا تھا وہ نبی ہے۔ اور اس کے پاس اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔ اور اس کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اس کا معبود نور سے بنا ہوا ایک شخص ہے جس کے سر پر نور کا تاج رکھا ہے۔ اس کے اعضاء اور تخلیق کی ایک آدمی کی طرح ہے۔وہ شکم اور دل بھی رکھتا ہے؛جس سے حکمت پیدا ہوتی ہے۔ اور ابجد کے حروف اس کے اعضاء کی تعدادکے مطابق ہیں ۔وہ کہا کرتا تھا کہ : الف ٹیڑھا ہونے کی وجہ سے اس کے پاؤں کی جگہ ہے۔ اور ہاء کے بارے میں کہا کرتا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ میں آپ ہاء کی جگہ دیکھ لیتے تو بہت بڑا امر عظیم دیکھ لیتے۔اور شرمگاہ سے اعراض کرتا تھا۔اس کا دعوی تھا کہ ا س نے رب تعالیٰ کو دیکھا ہے۔ اس جھوٹے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اور اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرے۔
وہ اسم اعظم کے ذریعہ مردوں کو زندہ کرنے کے دعوے دار تھا اور لوگوں کو شعبدہ بازی اورخرق عادت کے کچھ کرتب دکھایا کرتا تھا، چنانچہ لوگوں نے اس کی نبوت کا دعوی کر دیا۔اوروہ یہ بھی بتایا کرتا تھا کہ تخلیق کائنات کی ابتداء کیسے ہوئی؟ اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اکیلا تھا ؛ اس کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا؛ جب اس نے چیزوں کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو اسم اعظم کے ساتھ کلام کیا؛اور یہ اسم اعظم اڑ کرایک تاج کی صورت میں اس کے سر پر بیٹھ گیا۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے یہی مراد ہے : ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾۔’’اپنے رب کے نام کی تسبیح کر جو سب سے بلند ہے۔‘‘
اس کے بارے میں اور بھی بہت ساری اس طرح کی چیزیں بیان کی جاتی ہیں جن کا بیان یہاں پر طوالت اختیار کر جائے گا۔ خالد بن عبداﷲ القسری نے (اپنے عہد امارت میں ) اسے قتل کر دیا۔[2]
ابو منصور[3] کے متبعین جن کو منصوریہ کہا جاتا ہے،منصوریہ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ:وہ کہا کرتا تھا:
[1] دیکھو: الأشعرِی فِی المقالاتِ 1؍66 ۔تارِیخ الطبرِیِ5؍456۔الملل والنحل 1؍136۔الفِصل لِابنِ حزم 5؍44۔الخِطط لِلمقرِیزِیِ 2؍349۔فِرق الشِیعِ لِلنوبختِیِ 50۔ أعیان الشِیعِ 14؍173۔البدء والتارِیخ لِمطہرِ بنِ طاہِر المقدِسِیِ 5؍130، ط. پیرس1916.۔
[2] اشعری نے مقالات ۱؍۶۶ پر ذکر کیا ہے کہ بیان بن سمعان النہدی التمیمی کا ظہور عراق میں سن ایک سو ہجری میں ہوا۔ اور ۱۱۹ ہجری میں خالدبن عبداللہ القسری نے اسے آگ میں جلا کر قتل کردیا۔ لسان میزان ۲؍۵۵۔ تاریخ طبری ۵؍ ۴۵۶۔ مقالات اشعری ۱؍ ۹۵۔ ملل و نحل ۱؍ ۱۳۶۔ الفصل لابن جزم ۵؍ ۴۴۔
[3] ابو منصور عجلی کوفہ کا رہنے والا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ یہ عبدالقیس کے موالی میں سے تھا۔ یہ امام باقر المتوفی (۵۹۔ ۱۱۶) کا معاصر تھا۔اور آپ سے ملا کرتا تھا۔ اس کے خلاف اسلام عقائد سے متنفر ہو کر امام باقر اس سے بیزار ہوگئے تھے۔ امام باقر کی وفات کے بعد ۱۱۶ میں اس نے امام باقر کے وصی ہونے کا دعویٰ کر دیا، اور کہنے لگا:حضرت علی، حسن و حسین، علی بن حسین اور محمد باقر سب انبیاء تھے اور وہ بھی نبی و رسول ہے۔ اس کی چھٹی پشت تک نبوت جاری رہے گی۔ ان میں سے آخری شخص ’’ القائم ‘‘ ہوگا، جیسا کہ شیعہ علماء میں سے الکشی نے اعتراف کیا ہے۔ سب سے پہلے ابن سبا نے الوصی کا لفظ اختراع کیا۔ اسی طرح شیعہ فضلاء میں سے نو بختی کے(