کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 711
علماء کی ایک جماعت نے یہ عقیدہ اس سے نقل کیا ہے۔اور ان سے منقول یہ عقیدہ معتزلہ ؛ شیعہ ؛ کرامیہ ؛ اشعریہ اور اہل حدیث کے علاوہ دیگر طوائف کی کتابوں میں موجود ہے۔ ان سب علماء کا بیان ہے کہ سب سے پہلے جس شخص نے ذات باری پر جسم کا اطلاق کیا وہ ہشام بن حکم شیعہ تھا۔لوگوں نے رافضیوں کے اس سے بھی برے برے عقائد مقالات کی کتابوں میں نقل کئے ہیں ۔
شیعہ فرقے اور ان کے عقائد و افکار
علامہ اشعری اور دوسرے سابق الذکر علماء نے بیان[1] بن سمعان تمیمی.... ایک غالی شیعہ؛جس کی طرف شیعہ فرقہ بیانیہ کو منسوب کیا جاتا ہے .... سے نقل کیا ہے؛ وہ کہا کرتا تھا کہ اﷲ تعالیٰ کی صورت انسان جیسی ہے، اس کا صرف چہرہ محفوظ رہے گا باقی جسم فنا ہو جائے گا۔ اس کا دعوی تھا کہ وہ زہرۃ ستارے کو بلاتا ہے تو وہ اس کی بات مانتے ہوئے حاضر ہوجاتا ہے؛ اور ایسا وہ اسم اعظم کے زور پر کرتا ہے۔ خالد بن عبداﷲ قسری نے اسے قتل کر دیا تھا۔ان میں بہت سارے لوگوں سے نقل کیا گیا ہے وہ بیان بن سمعان کی نبوت کے قائل تھے۔ اور ان میں بہت سارے لوگوں کا ایمان تھا کہ ابو ہاشم عبداللہ بن محمد بن الحنفیہ نے بیان بن سمعان کو نبوت اور امامت
[1] (ص:۴۲و ۱۲۵) پر زرقان کا ذکر موجود ہے۔
بیان بن سمعان اموی عہد خلافت میں ایک خبیث اور فریب کار شخص ہوا ہے۔ اس دور میں ’’ الوصفا نامی ایک جماعت پیدا ہوئی تھی، جس کا سرغنہ مغیرہ بن سعید تھا یہ ان سے ساز باز رکھتا تھا۔ یہ اعداء دین کی ایک جماعت تھی، جو اسلام کے استیصال کیلئے وجود میں آئی تھی ۔ مالک بن سعید اور چند ذہین شعوبیہ اس کے ممبر تھے، ان کی جانب چند عقاید و افکار منسوب ہیں ،جو انہوں نے جاہل مسلمانوں کو پھنسانے اور دین اسلام سے منحرف کرنے کے لیے گھڑ رکھے تھے، دراصل یہ ان عقائد پر ایمان نہیں رکھتے تھے، بیان کے مخصوص افکار و معتقدات جن کا وہ داعی تھا وہ یہ تھے:
۱۔حضرت علی الہٰ ہیں ۔ ۲۔الوہیت کا ایک جز اس میں حلول کر آیا اور اس کے جسم کے ساتھ متحد ہو گیا ہے۔
۳۔وہ کہا کرتا تھا کہ: بعض اوقات میں ذات خداوندی کو دیکھا بھی کرتا ہوں ۔
بیان بن سمعان آیت :﴿ ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یَّاْتِیَہُمُ اللّٰہُ فِیْ ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ ﴾ (البقرہ۲۱۰)
’’کیا یہ لوگ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بادلوں کے سائے میں ن کے پاس آجائے۔‘‘
کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کرتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بادل کے سایہ میں آئیں گے۔ بجلی کی کڑک ان کی آواز ہوگی اور اس کی چمک ان کی مسکراہٹ۔ بیان کا قول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسرار پہلے ان کے فرزند محمد بن حنفیہ کی جانب منتقل ہوئے، اور پھر ان کے پوتے ابو ہاشم کی طرف۔ کچھ عرصہ کے بعد بیان نے یہ دعویٰ کر دیا کہ ابو ہاشم کی روح اس میں حلول کر آئی ہے۔ اور اس طرح بطریق تناسخ اس میں الوہیت سما گئی ہے۔ اسی اثنا میں بیان نے عمر بن ابی عفیف نامی قاصد کو محمد باقر کی طرف بھیج کر انہیں اپنی پیروی کی دعوت دی، محمد باقر نے قاصد کو حکم دیا کہ وہ دعوت نامہ نگل لے، چنانچہ اس نے حکم کی تعمیل کر دی، خالد بن عبداﷲ قسری ان دنوں خلیفہ ہشام بن عبدالملک کی جانب سے کوفہ کے گورنر تھے۔ جب ان کو بیان بن سمعان اور وصفاء کی جماعت کے حالات موصول ہوئے تو ۱۱۹ھ میں ان سب کو کوفہ کی جامع مسجد میں قتل کر دیا، وصفاء کی جماعت میں شامل ہونے والے نہ تو وہ کیسانیہ تھے جو محمد بن حنفیہ کے نام سے لوگوں کو دھوکہ دیا کرتے تھے اور نہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی آل کا نام لے کر فریب دینے والے امامیہ، بخلاف ازیں یہ لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ و تابعین کے خلاف حقد و عداوت کا داعیہ لے کر اٹھے تھے اور یہی چیز ان کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا موجب بنی۔