کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 710
اہل سنت پر مجسمہ ہونے کا الزام اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا رد: [اعتراض] :....شیعہ مصنف رقم طراز ہے:’’اللہ تعالیٰ کی ذات کو مخلوقات کے مماثل قرار دینے والے حشویہ [1] [اور مشبہہ]کا قول ہے کہ:’’ اﷲ تعالیٰ طول اور عرض و عمق رکھتا ہے۔وہ مصافحہ بھی کرتا ہے۔اور یہ کہ مسلمان صلحا ء دنیا میں اللہ تعالیٰ کی زیارت سے بہرہ ور ہوتے ہیں ؛ اور اس سے معانقہ کرتے ہیں ۔اور کعبی کے بارے میں آتا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا:اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوسکتا ہے ؛اللہ تعالیٰ ان کی زیارت کو آتا ہے اور وہ اس کی زیارت کو جاتے ہیں ۔ اور داؤد الطائی [2]کے متعلق منقول ہے وہ کہا کرتا تھا : ’’ مجھ سے اﷲ کی شرم گاہ اور داڑھی سے متعلق نہ پوچھو اور جو چاہو، دریافت کرو۔‘‘ وہ یہاں تک کہتا تھا کہ میرا معبود جسم، گوشت اور خون رکھتا ہے، اس کے اعضا بھی ہیں جیسے ہاتھ پاؤں ؛ آنکھیں اور کان۔ حتی کہ اس نے یہ بھی کہا ہے کہ : وہ اوپر سے لیکر سینے تک اندر سے خالی ہے۔اوراس کے بال گھنگھریالے ہیں ۔اور کہتے ہیں کہ: اﷲ کی آنکھیں دکھنے لگیں اور فرشتوں نے اس کی عیادت کی۔ طوفان آنے پر اﷲ تعالیٰ اس قدر رویا کہ اس کی آنکھیں دکھنے لگیں ۔اور یہ کہ وہ عرش کی ہر جانب سے چار انگلیوں کی قدر زائد ہے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی] [جواب] :....ہم کہتے ہیں کہ: اس اعتراض کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے: پہلی وجہ:.... اسلام میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے لیے بعینہٖ یہ الفاظ ’’ اﷲ تعالیٰ طول اور عرض و عمق رکھتا ہے‘‘ استعمال کرنے والا امامیہ مذہب کا شیخ ہشام بن حکم اور ہشام بن سالم [جوالیقی]رافضی بھی تجسیم کا عقیدہ رکھتا تھا۔ان کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے ۔مقالات اور عقائد نقل کرنے والے مؤلفین کا اس پر اتفاق ہے۔ متعدد ناقلین نے یہ نظریہ اس سے نقل کیا ہے، مثلاً ابو عیسیٰ الوراق زرقان[3]، ابن نوبختی ، ابو الحسن اشعری، ابن حزم ،شہر ستانی اور
[1] عمرو بن عبید معتزلی نے سب سے پہلے حشویہ کا لفظ استعمال کیا اور کہا کہ عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ حشوی تھے آغاز کار میں حشویہ سے عامۃ الناس مراد لیے جاتے تھے، کیونکہ حشو بھرتی کو کہتے ہیں ، یعنی بھرتی کے لوگ، پھر دین میں عقلی ڈھکوسلوں کی پیروی کرنے والے اہل حق متبعین سنت کو حشوی کا طعن دینے لگے، زیادہ تر معتزلہ ان کے پیرو روافض ، شعوبیہ اور اہل الاہواء یہ لفظ استعمال کرتے تھے، ان کی رائے میں امام احمد بن حنبل اور ہروہ شخص جو حدیث صحیح سے استناد کرتا اور قیاس و رائے، کو نظر انداز کر دیتا ہو، حشوی ہے۔ جب اولین حشویہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ اور حشویہ میں سے اوسط حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تھے تو ہر سنی کی یہ دلی آرزو ہے کہ یہ ان کا بستہ فرّاک رہے اور آخرت میں انہی کے ساتھ اٹھایا جائے۔‘‘ [2] یہ داؤد الجواربی کہلاتا تھا، امام ابو الحسن اشعری نے مقالات الاسلامیین ( ۱؍ ۲۵۸) میں اسے قائلین تجسیم میں شمار کیا ہے، علامہ سمعانی نے کتاب الانساب میں ہشام بن سالم جوالیقی کے بعد اس کا ذکر کیا ہے، اور بعینہ ابن المطہر شیعہ کا ذکر کردہ فقرہ اس سے نقل کیا ہے۔ [3] زرقان متعدد اشخاص کا نام و لقب ہے۔ : ۱۔ محمد بن آدم مدائنی شیعہ ۔ ۲۔ محمد بن عبداﷲ بن سفیان زیات بغدادی محدث۳۔ سیدنا ذوالنون مصری کے معاصر کا نام بھی زرقان بن محمد صوفی تھا۔ ۴۔ اصمعی کے استاد کا نام ابو عمیربن زرقان تھا، اس نے محمد بن سائب کلبی سے روایت کی ہے،ممکن ہے یہاں زرقان سے محمد بن آدم شیعہ مراد ہو، بشرطیکہ اس نے اسلامی فرقوں سے متعلق کوئی کتاب تصنیف کی ہو، تنقیح المقال میں اس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے یہ بات ذکر نہیں کی اس نے فرقہ جات پر کوئی کتاب لکھی ہے، ابو الحسن اشعری کی مقالات الاسلامیین میں اہل بدعت کے متعدد اقوال اس سے نقل کیے گئے ہیں ، کتاب الفرق بین الفرق طبع ۱۳۶۷(