کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 71
روافض کی بعض حماقتوں کا تذکرہ
ان کی جملہ حماقتیں توبہت زیادہ ہیں ۔ مثال کے طورپر زید نامی شخص کی کھودی ہوئی نہر سے ان کا پانی نہ پینا۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان نہروں اور کنؤوں سے بھی پانی پی لیتے تھے جنہیں کفار نے کھودا ہوتا تھا۔ اور ایسے ہی بعض شیعہ شامی توت نہیں کھاتے ۔اور یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کفار کے ممالک سے لائی جانے والی چیزیں جیسے : پنیر ‘ لباس [اور پھل وغیرہ] استعمال کرتے تھے۔ بلکہ غالب طور پر ان کے استعمال میں آنے والا لباس کفار کے ہاتھوں سے تیار کردہ ہوتا تھا۔اور ایسے ہی یہ لوگ لفظ’’ عشرہ ‘‘ یعنی ’’دس ‘‘ کو زبان پر لانا گوارا نہیں کرتے۔اورنہ ہی کوئی ایسا کام کرتے ہیں جس کی تعداد دس تک پہنچتی ہو۔
یہاں تک کہ عمارت تعمیر کرنے میں بھی اسے دس ستونوں پر تعمیر کرنا گوارا نہیں کرتے۔ اس لیے کہ یہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بہترین جماعت ’’ عشرہ مبشرہ ‘‘دس جنتی صحابیوں سے بغض رکھتے ہیں ۔
وہ دس حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ ہیں :جناب ابو بکر صدیق‘ جناب عمر فاروق جناب عثمان غنی ؛ جناب علی بن ابی طالب ؛ جناب طلحہ ‘ جناب زبیر ؛ جناب سعد بن ابی وقاص ؛ جناب سعید بن زید بن عمرو بن نفیل جناب عبد الرحمن بن عوف جناب ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ ۔ [ اللہم اجعلنا من محبیہم واحشرنا في زمرتہم؛ آمین]
سوائے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض رکھتے ہیں ۔ اور سابقین اولین میں سے مہاجر و انصاراور وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں حدیبیہ میں درخت کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی ؛ان سے بغض رکھتے ہیں ۔ بیعت کرنے والے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد چودہ سو تھی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو اپنی رضامندی کی سند عطا فرمائی ہے۔
صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
’’حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے غلام نے کہا:
’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اللہ کی قسم ! حاطب ضرور جہنم میں جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ تم جھوٹ کہتے ہو ۔ بیشک حاطب بدر اور حدیبیہ میں شریک ہوا تھا۔‘‘ [مسلم برقم(۱۹۴۲)]
جب کہ شیعہ ان جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرأ کرتے ہیں ؛ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیساتھ ان کا یہی سلوک ہوتا ہے سوائے چند ایک صحابہ کے؛ جن کی تعداد دس سے کچھ زیادہ بنتی ہے۔فرض کر لیجیے