کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 709
جہمیہ نے صفات کو ثابت ماننے والوں پر بہت بڑا بہتان لگایا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ابن کلاب کا شمار صفات الٰہیہ کو ثابت ماننے والوں میں ہوتا ہے۔اس نے جب جہمیہ کی تردید میں کتاب تحریر کی؛ تو انہوں نے ان کی بہن کے بارے میں ایک کہانی گھڑ ڈالی، کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہنے لگے کہ: ابن کلاب کی بہن نصرانی تھی، جب ابن کلاب مشرف باسلام ہوا تو بہن نے اس سے قطع تعلق کرلیا، ابن کلاب نے کہا کہ میں تو مسلمانوں کے دین میں فساد پیدا کرنے کے لیے مسلمان ہوا ہوں ، یہ سن کر وہ راضی ہوگئی۔
یہ کہانی گھڑنے والے کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ صفات باری تعالیٰ کا اثبات نصاری کا عقیدہ ہے، حالانکہ اہل سنت اور نصاری کے نظریات کے مابین اتنا ہی فرق ہے جتنا بنیاد اور چوٹی میں ۔ان سے یہ قصہ بعض سالمیہ اور بعض محدثین اور اہل سنت نے بھی لے لیا؛ اور مسئلہ قرآن میں اس کے کلام کی وجہ سے اس کی مذمت اور عیب جوئی کرنے لگے۔ اور انہیں یہ پتہ نہ چلا کہ جنہوں نے اس پر یہ الزام لگایا ہے وہ مسئلہ قرآن اور دوسرے مسائل میں اس کی نسبت حق بات سے بہت زیادہ دور ہیں ۔ اور یہ عیب بھی اس انداز میں تھا کہ حقیقت میں اس کی تعریف تھی۔ اس لیے کہ آپ کے ہاں ابن کلاب کا عیب یہ ہے کہ وہ صفات کو ثابت مانتا تھا؛ اور اب اس کا کلام اتنی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اس کے ذکر کے بغیر تمہاری بات مکمل نہیں ہوتی۔بلکہ اس پر ان کے کلام کا کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے۔
یہ بالکل اسی طرح ہے جیسا کہ ابن عقیل نے قرآن کے مسئلہ میں کیا تھا؛ اس نے معتزلہ کا وہ کلام لے لیا جس کی بنا پر وہ اشاعرہ پر رد کرتے تھے۔ کہ ان کا عقیدہ تھا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں ہے؛ بلکہ اسی سے عبارت ہے۔ اس عقیدہ کو لیکر وہ اشعریہ پر اعتراض کرنے لگے۔ معتزلہ کا مقصود یہ تھا کہ وہ اس سے قرآن کا مخلوق ہونا ثابت کریں ۔ جبکہ خلق قرآن کے عقیدہ میں اشعریہ معتزلہ سے بہت بہتر ہیں ۔ لیکن عیب کی بات ان کی اس کوتاہی میں ہے کہ انہوں نے سنت کو مکمل نہیں کیا۔
ایسے ہی بعض منصف مزاج اہل حدیث سالمیہ ؛ نے جب ابن کلاب ؛ اشعری اور ابن کرام کے متعلق حکایات ذکر کیں ؛ توان میں سے بعض قطعی طور پر جھوٹ تھیں ؛ جو ان کے اعداء معتزلہ نے ان کے خلاف گھڑ لی تھیں ۔ اس لیے کہ وہ صفات اور قدر کے اثبات کے قائل تھے۔ پس ان لوگوں نے آکر یہ حکایات بیان کرنا شروع کردیں ۔ اوراس سے مقصود ان کے بعض خطأ پر مبنی اقوال و عقائد کی وجہ سے متنفر کرنا تھا۔ اوریہ حکایات ان لوگوں نے گھڑ لی تھیں ؛ جو ان کی نسبت سنت سے بہت زیادہ دور تھے۔ اور ایسے ہی سالمیہ جوشیخ ابوالحسن بن سالم کے پیروکار ہیں ؛ وہ اپنے اکثر اصولوں میں اہل سنت والجماعت کے منہج پر ہیں ۔ لیکن جب ان کے بعض مسائل میں غلطی واقع ہوئی تو ان پر رد کرنے والوں اور ان کے خلاف لکھنے والوں نے بھی اپنی طرف سے اس میں کچھ زیادہ کردیا؛ حتی کہ وہ ان کی حق باتوں کابھی رد کرنے لگے۔