کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 702
ہے۔ اس لئے کہ اسم فاعل کا وجود مصدر کے بغیر ممتنع ہے، مثلاً صلوۃ[نماز] کے بغیر کوئی شخص مصلّی (نمازی) نہیں کہلا سکتا، روزہ کے بغیر صائم[روزہ دار] نہیں ہو سکتا اور نطق کے بغیر اسے ناطق نہیں کہہ سکتے۔ جب یہ کہا جائے کہ نماز کے بغیر کسی کو نمازی نہیں کہہ سکتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہاں دو چیزیں ہیں :
۱۔ ایک نماز اور ۲۔ دوسرا حال معلل بالصلوۃ۔ بخلاف ازیں نمازی وہی ہوگا، جو نماز سے موصوف ہو۔‘‘
انہوں نے منکرین صفات کے عقیدہ کا انکار کیا ہے جو کہتے ہیں کہ: اﷲتعالیٰ زندہ ہے، مگر حیات سے بہرہ ور نہیں ، اسی طرح وہ بلا قدرت قادر اور بلا علم عالم ہے ۔ جو شخص باری تعالیٰ کو حی اور علیم و قدیر بالذات تسلیم کرتا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات حیات اور علم و قدرت کو مستلزم ہے تو وہ دیگر کسی چیز کا محتاج نہیں ۔یہ صفات کو ثابت ماننے والوں کاعقیدہ ہے۔اور اگر اس سے مراد یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات مجرد ہے ؛ اس کے لیے نہ ہی علم ہے نہ ہی زندگی۔تو یہ عقیدہ منکرین صفات کا ہے۔
اور اس شیعہ مصنف نے جو بات کہی ہے؛ اس سے پہلے معتزلہ بھی یہی بات کہہ چکے ہیں ۔یہ الفاظ میں نے ابو الحسین البصری کے کلام میں بھی دیکھے ہیں ۔ مگر اس کے باوجود جو شخص ابو الحسین بصری اور منکرین صفات کے افکار و آراء پر زحمت غور و فکر گوارا کرتا ہے، اس پر یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اثبات صفات کے لیے مجبور پاتے ہیں ۔ اور اپنے اور قائلین صفات کے اقوال و معتقدات میں کوئی نمایاں فرق ثابت نہیں کر سکتے۔ اس لیے کہ منکرین صفات بھی اﷲ تعالیٰ کو حی، قادر اور عالم تسلیم کرتے ہیں ، اور یہ نہیں کہتے کہ صفات عین ذات ہیں ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے ذات الٰہی پر ان زائد صفات کا اضافہ کر دیاہے]۔دوسرے مقامات پر ہم نے یہ مسئلہ تفصیل سے بیان کردیا ہے۔
تیسری وجہ : ان سے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ : یہ عقیدہ اصل میں مثبتین صفات کا عقیدہ ہے؛ جو کہ اشاعرہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ بلکہ جہمیہ اور معتزلہ اور ان کے موافقین شیعہ کے علاوہ مسلمانوں کے تمام گروہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں ۔ ہم پہلے یہ بیان کرچکے ہیں کہ قدیم امامیہ علماء یہی عقیدہ رکھتے تھے۔ اگریہ عقیدہ غلط ہے تو امامیہ علماء غلطی پر تھے۔ اور اگریہ عقیدہ صحیح ہے؛ تو ان کے متأخرین علماء غلطی پر ہیں ۔
[چوتھی وجہ ]ان سے کہا جائے گا کہ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ: ’’ اہل سنت بہت سی چیزوں کو قدیم مانتے ہیں ۔‘‘ یہ ایک مبہم قول ہے جس کا مقصود واضح نہیں ، اس سے وہم پیدا ہوتا ہے کہ اہل سنت ازل ہی میں ذات باری کے علاوہ متعدد معبود مانتے ہیں ،یا پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس سے بہت ساری موجودات کو اس سے منفصل اور قدیم ثابت مانتے ہیں ؛یا پھر اللہ تعالیٰ کی صفات کمال جیسے علم و حیات اور قدرت کو اس کے ساتھ قائم مانتے ہیں ؟ اگر یہ کہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں کو بھی مانتے ہیں ؛ یا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس سے منفصل