کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 701
ان سب کو بحیثیت مجموعی ’’ نخلہ ‘‘ (کھجور کا درخت) کہا جاتا ہے۔ بعینہٖ اسی طرح اﷲتعالیٰ اپنی جملہ صفات سے متصف معبود برحق ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ :’’باری تعالیٰ کسی وقت قدرت سے عاری تھا،حتی کہ اس نے قدرت کو پیدا کیا۔ جسے کوئی قدرت نہ ہو وہ تو عاجز ہوتا ہے۔اور نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ:وہ علم سے عاری تھا؛بعد ازاں اس نے اپنے علم کو پیدا کیا، اور وہ ان سے متصف ہوا، حالانکہ جو علم و قدرت سے بہرہ ور نہ ہو وہ عاجز و جاہل ہوتا ہے۔ بخلاف ازیں ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ عالم و قادر اور مالک رہا ہے،اب یہاں کب اور کیوں کر کا سوال لغواور بیکار ہے۔‘‘ یقیناً اللہ تعالیٰ نے ایک کافر ولید بن مغیرہ مخزومی کا ذکر قرآن میں کیا ہے؛ اور اسے ’’وحید ‘‘ کہا ہے؛ فرمایا: ﴿ذَرْنِی وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیدًا﴾ (مدثر11) ’’چھوڑدیجیے مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔‘‘ یہ جس انسان کو وحید کہا گیاہے؛اس کی دوآنکھیں ؛ دو کام اورزبان اور دو ہونٹ تھے۔ دو ہاتھ اور دو پاؤں تھے۔ اور باقی تمام اعضاء بھی تھے؛ مگر اللہ تعالیٰ نے ان تمام صفات کے باوجود اسے وحید کہا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے لیے سب سے اعلیٰ مثالیں ہیں ۔ وہ اپنی تمام تر صفات کے باوجود الہ واحد ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کی ذکر کردہ توضیح ان مسائل کے تمام اسرار کو شامل ہے۔ اور اس فرق کو بیان کرتا ہے جورسولوں کا لایاہوا عقل کے موافق پیغام ربانی ہے؛ اور جو کچھ جہمیہ نے عقائد گھڑ لیے ہیں ۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کے اسماء کے مسمیٰ میں داخل ہوتی ہیں ۔ *وجہ ثانی: مزید برآں مذکورہ قول امام اشعری یا اس کے جمہور موافقین اشاعرہ کا قول نہیں ۔بلکہ صرف وہ اشاعرہ اس کے قائل ہیں جو حال کا اثبات کرتے اور کہتے ہیں : ’’ عا لمیت ‘‘ ایک حال ہے، جو معلل بالعلم ہے، ان کے نزدیک علم ایسے حال کا موجب ہے جو علم نہیں ، بلکہ عالم ہوتا ہے؛قاضی ابوبکر بن طیب المعروف امام باقلانی اور قاضی ابو یعلیٰ رحمہم اللہ یہی نظریہ رکھتے ہیں ، امام ابو المعالی رحمہ اللہ کا پہلا قول یہی ہے۔ قائلین صفات کے دلائل: بخلاف ازیں جمہور صفات کو ثابت ماننے والے کہتے ہیں : ’’ علم سے مراد عالم ہونا ہے، عالم وہی ہوتا ہے، جو علم سے بہرہ ور ہو اور قادر وہی ہے جو قدرت رکھتا ہو ۔ مقصود یہ ہے کہ بلا علم کوئی عالم نہیں کہلا سکتا۔ جو قدرت سے بہرہ ورنہ ہو وہ قادر نہیں ہوسکتا۔ اور جو حیات سے محروم ہو وہ حی نہیں ہو سکتا۔ان کے نزدیک اس کا علم اس کا عالم ہونا ہی ہے؛ اور قدرت اس کا قادر ہونا؛اور حیات سے اس کا زندہ ہونا مراد ہے۔ یہ حقیقت میں ابو الحسن البصری اور دیگر چوٹی کے ماہرمعتزلی علماء کا عقیدہ ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیز ضرورت کے تحت معلوم شدہ