کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 695
ہے تو اس کی نیکیوں کو قبول کرتاہے؛ اور اس کی برائیوں سے درگزر کردیتا ہے۔اور کبھی یہ بھی کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ اس کا محاسبہ نہیں کریں گے۔‘‘اسی لیے ولید بن عبد الملک نے بعض علماء سے[یہ مسئلہ] پوچھا تھا؛ تو انہوں نے جواب دیا:اے امیر المؤمنین ! کیا آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ عزت والے ہیں یا حضرت داؤد علیہ السلام ؟ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں : ﴿یٰا دَاوٗدُ اِِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ ﴾(ص 26) ’’ اے داؤد! بیشک ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے، سو تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کر اور خواہش کی پیروی نہ کر، ورنہ وہ تجھے اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ یقیناً وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں ، ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس لیے کہ وہ حسا ب کے دن کو بھول گئے۔‘‘ ایسے ہی سلیمان بن عبد الملک کا بھی اس سلسلہ میں ابو حازم المدنی سے سوال مشہور ہے؛ جو ان کے مشہور وعظ میں کیا تھا: تو انہوں نے بھی اس کے جواب میں یہی آیت پڑھی تھی۔ ان لوگوں کی غلطیوں اور گمراہیوں کے باوجود یہ کہتے تھے : امام منصوب کی اطاعت اللہ تعالیٰ نے موارد اجتہاد میں واجب کی ہے۔ جیسا کہ جنگی کمانڈر او رفیصلہ کرنے والے جج کی اطاعت واجب ہوتی ہے۔وہ ان کے اقوال کو شریعت نہیں قراردیتے کہ ہر ایک پر ان کی اطاعت واجب ہو۔ اور نہ ہی انہیں خطا سے معصوم سمجھتے ہیں ۔ اور نہ ہی یہ کہتے ہیں کہ امام کو سارے دین کا پتہ ہوتا ہے۔لیکن ان لوگوں میں سے جنہوں نے غلطی کی؛ انہوں نے دو وجہ سے غلطی کی ہے۔اول یہ کہ وہ لوگ حاکم کی اطاعت کو مطلق طور پر فرض سمجھتے تھے۔ اور کہتے تھے : اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ دوم یہ کہ: ان میں سے جو لوگ کہتے تھے کہ : جب اللہ تعالیٰ کسی کو حاکم بناتا ہے تو اس کی نیکیوں کو قبول کرتاہے؛ اور اس کی برائیوں سے درگزر کردیتا ہے۔تو ان لوگوں کی غلطی اور رافضہ کی گمراہی کے درمیان کیا نسبت ہوسکتی ہے جو اپنے ائمہ کو معصوم کہتے ہیں ۔ پھر اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہ مسائل جن سے وہ جمہور اہل سنت سے جداگانہ نظریات رکھتے ہیں ؛ وہ سبھی غلطی پر ہیں ۔ اور جو کچھ ان کے پاس حق موجود ہے؛ در حقیقت وہ جمہور اہل سنت یا بعض اہل سنت کا قول ہوتا ہے۔ اور ہم یہ نہیں کہتے کہ: ’’تمام اہل سنت و الجماعت کے گروہ حق و صواب پر ہیں ؛ بلکہ ان میں سے بعض سے غلطی بھی ہوتی ہے؛ اور حق و صواب کو بھی پالیتے ہیں ۔ لیکن ان میں سے ہر ایک گروہ کے پاس موجود حق و صواب شیعہ کے ہاں موجود حق و صواب سے بہت زیادہ ہے اور شیعہ کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں ۔