کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 693
سے کسی حکم کلی پر بمعنی عام تعلیق منصوص ہو؛ تو پھر اس کے ثبوت کی ایک صورت پر غور کیا جائے؛ یا اس کی عام انواع کو دیکھا جائے؛ جیساکہ عدالت کا معتبرہونا؛ اور قبلہ کی طرف رخ کرنا؛ اور شراب اور جواکا حرام ہونا منصوص ہے؛ اور ایسے ہی قسم کا حکم؛اور مردار ہور خون کا او رخنزیر کے گوشت کا حرام ہونا؛ اور اس طرح کے دیگر مسائل۔ تو پھر پینے کی جس چیز میں اختلاف واقع ہو تو ہم دیکھیں گے؛ کیا وہ خمر[شراب ] کی قسم ہے یا نہیں ؟ جیسے نشہ آور نبیذ۔ اور کھیلوں میں سے متنازع کھیل میں دیکھیں گے؛ جیسے چونسہ بازی اور شطرنج ؛ کیا وہ جوئے کی طرح ہے یا نہیں ؟ اور متنازعہ قسم کے بارے میں دیکھیں گے جیسے حج اور مال صدقہ کرنے ؛ اور غلام آزاد کرنے ؛ اور طلاق ؛ اور حرام قرار دینے ؛ اور ظہار کی قسم ؛ کیا یہ سبھی قسم میں داخل ہیں کہ ان کا کفارہ دیا جائے۔ یا ان کا شمار حلف کردہ عقود میں ہوتا ہے ؛ اوروہ کچھ پورا کرنا لازم آتا ہے جس کا حلف اٹھایا ہو۔ یا پھر اس کا شمار ان میں سے کسی ایک میں بھی نہیں ہوتا؛ او رکسی طرح بھی اس انسان پر کچھ بھی لازم نہیں آتا۔جیسا کہ اس چیز میں غور کیا جائے گا جس میں خون یا مردار یا خنزیر کا گوشت گر جائے؛ خواہ وہ پانی ہو یا دوسری کوئی مائع چیز ہو؛ اور اس کا رنگ اور ذائقہ نہ بدلا ہو۔ بلکہ نجاسات اس میں مل کر ختم ؍ تحلیل ہو چکی ہوں ۔ یا پھر ان کو اٹھالیا گیا ہے؛ اور اس کے جو اجزاء اس میں ملے ہوئے باقی رہ گئے تھے؛ وہ تحلیل ہوگئے ہوں ۔ پس اس میں دیکھا جائے گا: کیا یہ اس پانی کے مسمیٰ میں داخل ہے جو کتاب و سنت میں مذکو ر ہے ؟ یا پھر اس مردار؛ خون اور خنزیر کے گوشت کے مسمیٰ میں داخل ہے ؟
جہاں تک تنقیح مناط اور اس کی تخریج کا مسئلہ ہے ؛ تو ان دونوں امور میں اختلاف ہے۔ اس امامی شیعہ نے اصل میں کوئی ایسی دلیل ذکر ہی نہیں کی جو اجتہاد رائے اور قیاس کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہو؛ اور اس پر رد کیا جائے۔ بلکہ ان نے صرف اتنا کہا ہے:’’ایک گروہ یہ بات کہتا ہے۔‘‘ تو یہ استنباط اور استخراج سے ان کی جہالت اور شریعت میں موجود حکمتوں اور معانی سے عدم معرفت؛ اور متماثلین کے مابین جمع اور مختلفین کے مابین تفریق سے لا علمی کی دلیل ہے۔پس یہ لوگ قرآن کے معانی اور احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی زیادہ لاعلم اور جاہل ہیں ۔ پس یہ لوگ اصول شریعت: کتاب اللہ تعالیٰ ؛ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع سے بالکل جاہل ہیں ؛ جو کہ ان نصوص اور استنباط کی روشنی میں ثابت ہوتے ہیں ۔
ان کی اہم بنیاد اور اساسی چیز وہ منقولات ہیں جو اپنے سے نقل کرتے ہیں ۔ یہی حال ان جاہل مقلدین کا ہوتا ہے جو کسی ایک عالم کے استدلال کی پیروی کرتے ہیں ۔ پھر ان کے علاوہ وہ دوسرے حضرات جو علماء کی تقلید کرتے ہیں جیسے امام مالک؛ امام شافعی اور امام احمد اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ اور دیگر حضرات؛ تو انہیں ان حضرات کے اقوال کی معرفت ہوتی ہے۔ اوران طرق سے بھی آگاہ ہوتے ہیں جن سے ان کے اقوال میں سے صحیح اور ضعیف کو جان سکیں ۔اور ان کے دلائل اوران کے مآخذ کا علم ہوتاہے۔جبکہ روافض اپنے سے منقول صحیح اور غیر صحیح میں کوئی فرق نہیں کرسکتے۔ اورنہ ہی انہیں ان کے دلائل اوران کے مآخذ کا علم ہوتاہے۔بلکہ وہ بھی جن مسائل میں