کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 692
قیاس کو نہیں مانتے۔
[اسی طرح محدثین کی ایک جماعت بھی قیاس کی مذمت کرتے ہیں ]۔پس جو بھی صورت ہو؛ اگر قیاس باطل ہے ؛ اور اسے ترک کیا جاسکتا ہے تو یہ بھی اہل سنت کے اقول میں سے ایک قول ہے۔ اور اگر یہ حق ہے ؛ اور قیاس کرنا ممکن ہے ؛ تو اہل سنت کا ایک گروہ اس کا بھی قائل ہے۔ [الغرض کسی بھی صورت میں حق اہل سنت سے باہر نہیں جاتا]۔
وجہ سوم : قیاس اور رائے کو حجت قرار دینا ایک مشہور جھوٹے اور غیر معصوم کے اقوال غیر مصدقہ کو مستند تصور کرنے سے بہتر ہے۔ یہ حقیقت کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ صحیح ثابت شدہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ان ائمہ کبار کے اجتہاد اور رائے کی طرف رجوع کرنا جوکہ مسائل و احکام کی تنقیح و تخریج اور مناط حکم کے بیان کیلئے اجتہاد کرتے ہیں ؛ شیعہ کے امام حسن عسکری اور ان کے فرضی بیٹے کی روایات کے ساتھ تمسک و احتجاج کرنے سے بہتر ہے۔یہ ائمہ دین مثلاً مالک،ابن ابی ذویب؛ابن الماجشون؛ لیث، اوزاعی، ثوری،ابن ابی لیلیٰ؛شریک؛ ابو حنیفہ،ابو یوسف ؛محمد بن حسن؛ زفر؛حسن بن زیاد اللولوئی؛ شافعی ؛ بویطی؛ مزنی؛اور احمد بن حنبل؛ اسحق بن راہویہ ؛ابو داؤد سجستانی؛اثرم؛ ابراہیم الحربی؛ بخاری؛ عثمان بن سعید الدارمی؛ ابو بکر بن خزیمہ؛ محمد بن جریر الطبری؛ محمد بن نصر المروزی؛ رحمہم اللہ اور ان جیسے دیگر علماء کرام حسن عسکری رحمہ اللہ اور ان کے متعلقین سے زیادہ علم دین رکھتے تھے۔اور اگر ان میں سے کوئی ایک کوئی فتوی دے؛ تو اس کے اجتہاد کی طرف رجوع کرنا ان عسکریین کے اجتہاد کی طرف رجوع کرنے سے زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے۔بلکہ ایسا کرنا ان پر واجب ہو جاتا ہے۔ تو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب ان سے نقل کرنے والے روافض جیسے لوگ ہوں ۔
پس عسکریین اور ان کے امثال پر یہ فریضہ عائد ہوتا تھا کہ ان حضرات سے علمی استفادہ کرتے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ علی بن حسین، ابو جعفر اور جعفر بن محمد عالم و فاضل تھے، ان کے بعد ان کی اولاد [بقیہ اماموں ]میں کوئی عالم دین پیدا نہیں ہوا؛ اور نہ ہی ان کے علم کے بارے میں کوئی ایسی بات معلوم ہوئی ہے جیسے ان حضرات کے بارے میں معروف تھا۔ بایں ہمہ وہ اپنے معاصر علماء سے علمی استفادہ کرنے اور ان کی طرف رجوع کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔حتی کہ قاضی ابو عمران بن اشیب بغدادی نے کہاہے: ’’ہمیں ہمارے اصحاب نے خبر دی ہے ؛ کہ ربیعہ بن ابو عبد الرحمن اور جعفربن محمد کا تذکرہ ہوا؛ اور بیشک انہو ں نے [ربیعہ سے]علم حاصل کیا۔ ربیعہ نے کہا ہے: بیشک آپ نے مدینہ کے باغوں میں سے ایک باغ خریدا؛ اور پھر انہیں حضرت ربیعہ کی خدمت میں بھیجا تاکہ وہ خریداری کی شرائط تحریر کردیں ۔یہ واقعہ محمد بن حاتم بن زنجویہ البخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’إثبات امامۃ الصدیق ‘‘ میں نقل کی ہے۔
جہاں تک تحقیق مناط کا تعلق ہے؛ تو وہ مسلمانوں کے مابین متفق علیہ مسئلہ ہے۔ وہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف