کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 691
والے تو راتوں کو ٹکسال میں حدیثیں گھڑتے اور دن میں ان کو پھیلاتے ہیں ۔‘‘
بایں ہمہ کوفہ میں بہت سے قابل اعتماد محدثین بھی موجود تھے۔ شیعہ کے کثرت کذب کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم حدیث میں مہارت نہ رکھنے والوں پر احادیث کی چھان پھٹک مشکل ہو گئی اور وہ صحیح و ضعیف حدیث میں امتیاز نہیں کر سکتے تھے۔ جیسے کوئی اجنبی شخص ایک ایسے شہر میں داخل ہو جہاں کے آدھے باشندے دروغ پیشہ ہوں ؛ تو وہ شخص جب تک کسی صادق اور ثقہ راوی کو پہچان نہ لے گا ان سے روایت نہیں کرے گا۔یا جس طرح کسی شہر میں کھوٹے سکے زیادہ ہوں تو جو شخص کھرے کھوٹے میں تمیز نہیں کر سکتا معاملہ سے اجتناب کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ناقد کے لیے اہل بدعت کی کتب کا درس و مطالعہ جن میں روایات کا ذبہ کی بھر مار ہو؛ مکروہ ہے۔ اسی طرح افسانہ گو اور ان کے نظائر و امثال سے.... جو دروغ گوئی میں معروف ہوں .... علمی استفادہ ناروا ہے، اگرچہ یہ لوگ کافی سچ بھی بولتے ہیں ۔اس امر میں علماء اسماء الرجال یک زبان ہیں کہ شیعہ سب فرقوں کی نسبت زیادہ جھوٹ بولتے ہیں ۔
[شیعہ مذہب میں رائے؛ اجتہاد کی طرف عدم التفات کا دعوی]
[اعتراض]:.... شیعہ مصنف رقم طراز ہے: ’’ شیعہ ائمہ نے رائے اور اجتہاد کی جانب دھیان نہیں دیا اور قیاس اور استحسان کو حرام قرار دیا۔‘‘
[جواب]:....اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتاہے:
پہلی وجہ :.... جہاں تک قیاس و رائے کا تعلق ہے اس میں اہل سنت اور شیعہ برابر ہیں ۔ اہل سنت میں اہل رائے بھی ہیں ؛ اور وہ بھی جو حجیت قیاس کے قائل نہیں ۔شیعہ میں اس بارے میں نزاع ہے ۔ زیدیہ شیعہ حجیت قیاس و اجتہاد کے قائل ہیں ؛ اوروہ اس باب میں اپنے ائمہ سے مرویات نقل کرتے ہیں ۔[1]
دوم : بہت سارے خواص و عوام اہل سنت قیاس کو نہیں مانتے۔ایسا نہیں ہے کہ جو کوئی بھی خلفاء ثلاثہ کی خلافت کا قائل ہوگا وہ قیاس کا بھی قائل ہوگا۔بلکہ بغداد کے معتزلہ قیاس کو حجت قرار نہیں دیتے۔[2]
اہل ظاہر کے فقہاء جیسے داؤد بن علی[3] اور ان کے متبعین ؛ اہل بیت کا ایک گروہ اور صوفیاء کا ایک گروہ
[1] زیدیہ کے اس بارے میں دو گروہ ہیں ۔ ایک گروہ قیاس کو مانتا ہے اور اجتہاد اوررائے کا انکار کرتا ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ ان کی مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : اشعری کی کتاب ’’مقالات الاسلامیین ۱؍۱۴۱۔
[2] ۔قال الآمِدِی فِی الإِحکامِ فِی أصولِ الأحکام ۴؍۶۔:وقالتِ الشِیعۃ والنظام وجماعۃ مِن معتزِلۃِ بغداد کیحیی الِإسکافِیِ وجعفرِ بنِ مبشِر وجعفرِ بنِ حرب بإِِحالۃِ ورودِ التعبدِ بِہ(القِیاسِ) عقلاً،وإنِ اختلفوا فِی مأخذِ الإِحالۃِ العقلِیۃِ۔‘‘ [اصول الدین لابن طاہر ۹۔]
[3] علامہ ابن حزم ظاہری نے اس سلسلہ میں ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے :’’ملخص ابطال القیاس والرأئی والإستحسان والتقلید و التعلیل۔‘ ‘اور یہ کتاب استاد سعید افغانی کی تحقیق کے ساتھ ۱۹۶۰ء میں دمشق سے چھپ چکی ہے۔ اس کی مزید تفصیل آمدی کی کتاب’’احکام الاحکام میں مل سکتی ہے۔