کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 690
کا ذریعہ معاش ہیں ۔حتی کہ بعض لوگوں کا خیال ہے رسائل اخوان بھی امام جعفر کا کلام ہے۔ حالانکہ ہر عقل مند اور سمجھدار انسان جو اسلام کے بارے میں بہت معمولی سی معلومات رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب کی باتیں اسلام سے متناقض ہیں ۔
مزید برآں کہ یہ کتاب حضرت جعفر بن محمد رحمہ اللہ کی موت کے دو سو سال بعد لکھی گئی ہے۔اس لیے کہ محمد بن جعفر رحمہ اللہ کی وفات سن ۱۴۸ھ میں ہوئی ہے۔ اوریہ کتاب چوتھی صدی ہجری میں اس وقت لکھی گئی جب مصر میں بنو عبید کی حکومت تھی؛ اور انہوں نے قاہرہ شہر آباد کیا تھا۔ تو یہ کتاب ان اسماعیلیہ کے مذہب کے مطابق لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کا مواد خود اس پر دلالت کرتا ہے۔اس کتاب میں وہ احوال لکھے گئے ہیں جو شام کے ساحل پر مسلمانوں کے ساتھ پیش آئے؛ جب عیسائی مسلمانوں پر غالب آگئے تھے۔ یہ تیسری صدی ہجری کے بعد کا واقعہ ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کے مصنفین جیسے زیدبن رفاعہ ؛اور ابوسلیمان بن معشر البستی؛ جو المقدسی کے نام سے مشہور تھا؛ اور ابو الحسن علی بن ہارون الزنجانی؛ اور ابو احمد النہر جوری اور عوفی؛ابو الفتوح المعافی بن زکریا الجریری ؛ جس کی کتاب ’’الجلیس الانیس ‘‘ ہے؛اور ان کے ساتھ مناظرہ کا بھی معلوم ہوا ہے؛ جس کا ذکر ابو حیان توحیدی نے اپنی کتاب ’’الإمتاع المؤانسۃ ‘‘ میں کیا ہے۔‘‘ [الفہرست لابن ندیم ۱۷۴]
خلاصہ کلام! جو کوئی رافضہ کی تحریروں اور تقریروں میں ان کا آزما چکا ہو اسے علم ہے کہ رافضی اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بڑھ کر جھوٹ بولنے والے ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ صدق ناقل اور اتصال سند کو معلوم کیے بغیر کثرت سے جھوٹ بولنے والے شیعہ کی روایات پر اعتمادنہیں کیا جا سکتا ۔ شیعہ کی دروغ گوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل کوفہ اور عراق کے باشندے بھی ان کی دیکھا دیکھی دروغ گوئی کے خوگر بن گئے اس کی حدیہ ہے کہ اہل مدینہ ان کی روایات کو قبول کرنے سے احتراز کرتے تھے، امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:
’’اہل عراق کی مرویات کے ساتھ اہل کتاب کی روایات کا معاملہ کریں ؛ نہ ان کی تصدیق کیجئے نہ تکذیب۔‘‘
ایک مرتبہ محدث عبدالرحمن بن [1] مہدی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے کہا:
’’ ابو عبداﷲ ! (امام مالک کی کنیت) ہم نے آپ کے شہر (مدینہ طیبہ) میں چالیس دن میں چار سو حدیثیں سنی ہیں ، حالانکہ ہم (عراق میں ) ایک دن میں اس قدر احادیث سن لیا کرتے تھے۔‘‘
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ ابو عبدالرحمن ! آپ کی ٹکسال ہمیں کہاں نصیب ! آپ کے علاقہ
[1] عبد الرحمن بن مہدی کی کنیت ابو سعید اور نسبت لؤلوی بصری ہے۔ ان کی تاریخ ولادت ووفات(۱۳۵۔۱۹۸) ہے ۔ یہ بہت بڑے حافظ حدیث تھے۔ ان کے اساتذہ میں شعبہ بن حجاج، سفیان ثوری اور امام مالک کے نام قابل ذکر ہیں ۔ عبد اﷲ بن مبارک اور امام احمد بن حنبل نے آپ سے روایت کی ہے یہ ہر سال حج کو جاتے اور ہر دو رات میں قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔