کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 69
یہیں سے ان کا نام رافضی پڑ گیا ‘ اس لیے کہ انہوں نے زید بن علی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اور جن لوگوں نے آپ کا ساتھ دیا تھا ‘ انہیں زیدیہ کہا جانے لگا۔ اس لیے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو زید بن علی کی طرف منسوب کرتے تھے۔
جب آپ کو پھانسی پر لٹکایاگیا تورات کو [کچھ شیعہ ]عابد آتے اور اس لکڑ کے پاس عبادت کرنے لگتے ۔ امام شعبی رحمہ اللہ کی وفات خلیفہ ہشام کی خلافت کے شروع اور اس کے بھائی خلیفہ یزید بن عبد الملک کی خلافت کے آخری ایام میں ہوئی ہے ۔یہ تقریباً ۱۰۵ھ کا زمانہ ہے ۔ اس وقت تک لفظ ’’ رافضہ ‘‘ معروف نہیں تھا۔
اس سے ان احادیث کے من گھڑت ہونے کا بھی پتہ چل جاتا ہے جن میں ’’ رافضہ ‘‘ کا لفظ آیا ہے ۔ مگر اتنا ضرور تھا کہ انہیں اس کے علاوہ دوسرے ناموں سے پکارا جاتا تھا۔ جیسا کہ انہیں خشبیہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس لیے کہ یہ لوگ کہا کرتے تھے کہ : ہم تلوار کے ساتھ جہاد صرف امام معصوم کی موجود گی میں ہی کریں گے۔پس یہ لوگ لکڑی سے لڑا کرتے تھے۔
امام شعبی رحمہ اللہ سے منقول بعض روایات میں آیا ہے ‘ آپ نے فرمایا: ’’ میں نے خشبیہ[شیعہ] سے بڑھ کر بیوقوف کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ تو ان روایات میں رافضہ کو بالمعنی تعبیر کیاگیا ہوگا۔عبد الرحمن کے ضعیف ہونے کے باوجود اس کے سیاق و سباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ : یہ کلام عبد الرحمن بن مالک بن مغول کی تالیف ہے ۔اور اس کا کچھ حصہ انہوں نے ضرور امام شعبی سے سنا ہوگا ۔ بھلے پھر اسے انہوں نے اپنے الفاظ میں بیان کردیا ہو۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے زمانہ کے شیعہ میں ایسے برے امور کا مشاہدہ کرلیا تھا۔ یا ان کے بارے میں جو کچھ سنا ہو ‘ اس کی بنیاد پر ایسے کہا ہوگا۔ یا دیگر اہل علم کے اقوال ان کے بارے میں سنے ہوں گے۔ یا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اس میں دونوں باتیں موجود ہوں ۔ یا کچھ کلام امام شعبی کا ہو اور کچھ دیگر علماء کرام کا ۔ خواہ جو بھی حال ہو ‘یہ کلام اتنی اسناد سے منقول ہے کہ اب دیگر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رافضی ایسے کرتے ہیں ۔ اس سے مراد بعض رافضی ہیں ‘سارے نہیں ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُنِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ﴾ (التوبہ۳۰)
’’اوریہود ی کہتے ہیں کہ عزیر (پیغمبر )اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے اورنصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ﴾ [المائدہ ۶۴]
’’اور یہودی کہتے ہیں اللہ کا ہاتھ تنگ ہے ؛انھی کے ہاتھ تنگ[کردیے گئے] ہیں ۔‘‘
یہ بات تمام یہودیوں نے نہیں کہی تھی؛ بلکہ ایسا کہنے والے ان میں سے کچھ لوگ تھے۔یہ جو باتیں بیان کی گئی ہیں ؛ یہ رافضیوں میں بھی موجود ہیں ۔ صرف یہی نہیں ‘بلکہ اس سے کئی گنا زیادہ موجود ہیں ۔ مثال کے طور پر ان میں سے بعض خر گوش اور اونٹ کا گوشت نہیں کھاتے ۔ یہ بھی یہودیوں کی مشابہت ہے ۔ اور ہمیشہ دو نمازیں