کتاب: منہاج السنہ النبویہ (جلد2،1) - صفحہ 689
[ائمہ معصومین سے روایت کا دعوی اور اس پر رد]
٭ شیعہ کا یہ قول کہ: ’’ امامیہ ثقہ رایوں سے نقل کرتے ہیں ۔ تم خلفاً عن سلفٍ روایت کرتے چلے جاؤ گے یہاں تک کہ یہ روایت ائمہ معصومین میں سے کسی امام تک پہنچ جائے گی۔‘‘
ہم جواباً کہتے ہیں کہ:اول : ....’’ اگر یہ بات درست ہے تو ایک ہی معصوم سے روایت کرنا کافی ہے، ہر زمانے میں معصوم کی کیا ضرورت ہے؟ ۔نیز جب نقل و روایت موجود ہے اور اس پر اکتفاء کیا جا سکتا ہے، تو اس امام منتظر کا کیا فائدہ جس سے ایک لفظ بھی منقول نہیں ،اور اگر یہ نقل ناکافی ہے[ تو شیعہ بارہ سو سال سے خسارہ و جہالت میں رہے]پھر یہ ان کے ماننے والوں کے لیے بھی کافی نہیں ہوسکتی۔
دوم: ....مزید برآں یہ کہ : اگر ان میں سے کسی ایک سے منقول ثابت بھی ہوجائے جو کہ اس نے اپنے سے پہلے امام سے سنی ہو تو اس کا حکم وہی ہوگا جو اس کے امثال کی مسموعات و مرویات و منقولات کا ہے۔
شیعہ کی دروغ گوئی
سوم :.... روافض ائمہ پر دروغ بیانی کرنے میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں ۔ امام جعفر صادق شیعہ کی دروغ گوئی کی خصوصی آماج گاہ ہیں ، دروغ گوئی کی حدیہ ہے کہ انہوں نے مندرجہ ذیل کتب کو امام موصوف کی جانب منسوب کر رکھا ہے:
۱۔کتاب الجفر ۲۔ البطاقۃ ۳۔ الہفت
۴۔کتاب اختلاج الاعضاء۔ ۵۔ جدول الہلال
۶۔ احکام الرعود والبروق ۷۔منافع سور القرآن۔
۸۔ قرأۃ القرآن في المنام ۔[1]
ایسے ہی جو کچھ ابوعبدالرحمن السلمی[2] نے اپنی کتاب’’حقائق التفسیر‘‘ میں نقل کیا ہے؛ یہ کتب شیعہ فرقہ طرقیہ
[1] بہت ساری کتابیں حضرت جعفر الصادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کی گئی ہیں جن کا موضوع مخفی اور باطنی علوم ہیں ؛ جن کے بارے میں شیعہ حضرات کا خیال ہے کہ یہ علم ائمہ کے ساتھ خاص تھا۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب ’’کتاب الجفر ‘‘ہے۔ اور بعض شیعہ یہ کتاب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اورکا نام رکھا ہے: ’’جفر تنبؤا بالاحداث إلی نہایۃ العالم۔‘‘دیکھو: بروکلمان ۱؍ ۲۶۰۔ اور اسی مصنف نے ’’کتاب ’’اختلاج الاعضاء اور منافع سور القرآن ‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ کتاب الجفر اس کے متعلق کلینی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’’بیشک کتاب الجفر میں حضرت موسی علیہ السلام کی تورات اور حضرت عیسی علیہ السلام کی انجیل ؛ اور دیگر تمام انبیاء اور اولیاء کے علوم ہیں ؛ اور بنی اسرائیل کے علماء کے علوم ہیں ۔اس میں حلال و حرام کا اور ماکان و ما یکون کا علم ہے۔ پھر یہ بتایا ہے کہ : جفر کی دو اقسام ہیں :۱۔ جو بکرے کے چمڑے پر لکھی جاتی ہے۔ اور دوسری وہ جو بھیڑ کے چمڑے پر لکھی جاتی ہے۔ دیکھو: ۱؍۲۳۸؛ ط: تہران۔
[2] ابو عبد الرحمن محمد بن حسین بن محمد السلمی ولادت ۳۲۶ہـجری اور وفات ۴۱۲ہجری۔ علامہ ذہبی کہتے ہیں : صوفیاء کا شیخ تھا؛ان کے لیے تفسیر اور تاریخ بھی لکھی ہے۔ اور صوفیاء کے لیے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔